مثبت پیغام اور جوڑنے کی ضرورت

0

پہلگام میں 22اپریل کو جو دہشت گردانہ حملہ ہوا ،اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اوراس واقعہ کی بنیادپر جتنی بھی سخت کارروائی کی مانگ کی جائے ، کم ہے ۔حکومت اپنے طورپر جو بھی کارروائی کررہی ہے اور قدم اٹھارہی ہے ،اپوزیشن سے لے کر عوام تک ہر کوئی نہ صرف اس کی حمایت کررہاہے ، بلکہ سخت سے سخت کارروائی کی مانگ کررہاہے ۔پوراملک اس معاملہ میں حکومت کے ساتھ کھڑا ہے ۔کسی نے بھی حکومت کے کسی قدم کی مخالفت نہیں کی ، یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اس واقعہ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج ہورہاہے ۔خود کشمیر میں کئی دنوں تک لوگوں نے سڑکوں پراترکر احتجاج کیا ۔ایسے حالات میں جب لوگوں کو متحد رہنے کی ضرورت ہے ۔ کچھ لوگ واقعہ کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ پرستی کی سیاست کررہے ہیں ۔پہلگام حملہ کی ایک تصویر وہ بھی ہے، جب خچر کی سواری کرانے اورکنبہ میں اکیلے کمانے والے کشمیری نوجوان سید عادل حسین شاہ لوگوں کی جانیں بچانے کیلئے دہشت گردوں سے لڑگیا اور اس میں اس کی جان چلی گئی۔ دوسری تصویر وہ بھی ہے ، جب مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا، تو سیدعادل حسین شاہ کے کنبہ کو 5لاکھ کی امداد کا چیک دیا اورتیسری تصویر وہ ہے ، جو ان ہی کی حکومت کے ایک وزیر نتیش رانے یہ بیان دے کر پیش کی ہے کہ جب دہشت گردہمارا مذہب پوچھ کر ہمیں گولی مارتے ہیں ، تو آپ بھی دکاندارکا مذہب پوچھ کر چیزیں خریدیں ۔صرف ہندودکانوں سے سامان خریدیں ۔ اگر دکاندار خود کو ہندوبتائے ، تو اس سے ہنومان چالیساپڑھنے کو کہیں ، کیونکہ وہ جھوٹ بھی بول سکتاہے ۔کچھ لوگوں نے یہ مہم چلائی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ملازم نہ رکھیں ۔ ان کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ پہلگام حملہ کی سزا پوری مسلم کمیونٹی کو دیں ۔ کیوں دیں؟ اس کا جواب شاید ان کے پاس بھی نہیں ہوگا۔مرکزی وریاستی کوئی بھی حکومت ایسی بات نہیں کہہ سکتی ، لیکن دیکھاگیا ہے کہ کچھ لوگوں کامزاج بن گیا ہے کہ وہ کسی بھی وا قعہ پر فرقہ پرستی کی سیاست شروع کردیتے ہیں ، چاہے موقع ہو یا نہ ہواوروقت کا تقاضا کچھ اور ہو۔
پہلگام واقعہ کے بعد جہاں پورا ملک متحدہے اورسخت کارروائی کی مانگ کررہا ہے ، کچھ لوگ الگ ہی لائن اختیارکئے ہوئے ہیں ،اورلوگوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ، جو تشویشناک ہے ۔پہلگام حملے کے تناظر میں جو فرقہ پرستی کی سیاست ہورہی ہے ،اس پر اترپردیش کے الہ آباد شمالی حلقہ سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی ہرش وردھن باجپئی کے بیان کی ہر کوئی تعریف کررہا ہے۔ان کا کہناہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی مسلمانوں سے جوڑنایا ان کا موازنہ کرناغلط ہے ۔ویڈیومیں سوال وجواب کی شکل میں ان کا بیان سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہاہے اورہرکسی کے دل کوچھورہاہے ۔ان کا کہناہے کہ نام پوچھ کر جس طرح مارا گیا، اس سے ہندوؤں کو بہت تکلیف ہوئی ، لیکن اس خچر والے مسلمان کو یاد کریں،جس نے غیر مسلح ہونے کے باوجود دہشت گردوں سے ایم 4 رائفل چھیننے کی کوشش کی اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ان کشمیریوں کے بارے میں بھی سوچیں ،جو مسلمان ہیں اور آج سری نگر میں بند اور ہڑتال کررہے ہیں۔ کشمیر کی سیاحت پر حملہ کر کے کشمیر کے ہر کچن کو خطرے میں ڈال دیا ہے، کشمیری اسے کبھی معاف نہیں کریں گے ۔آج کشمیر مکمل طور پر الگ تھلگ پڑ چکا ہے۔جس طرح کشمیر کے لوگوں نے الیکشن میں زیادہ ووٹنگ کی، اس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ ہندوستان کا حصہ ہیں۔ ایسے میں کشمیری طلباپر حملہ شرمناک ہے ۔یہ بیان دے کر دراصل انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑاکرنے کی کچھ لوگوں کی حرکتوں کا جواب دیا ہے ۔
ہرکوئی جانتاہے کہ جب دہشت گردوں نے حملہ کیا ، تومتاثرین کی مددکیلئے سب سے پہلے پہنچنے والے کشمیری تھی ۔ انہوں نے سیاحوں کی ہرطرح مدد کی ۔ یہ میڈیا نے بھی دکھایا۔ ایسے میں ملک کے دوسرے حصوں میںکشمیریوں پر حملہ کرناان کی دل شکنی ہوگی اوران کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی سے دور کرنا ہے ۔ پورے ملک میں مسلمانوں نے کالی پٹی باندھ کر پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے خلاف احتجاج کیا ،ایسے میں ان کے خلاف سیاست کرنا دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ۔کسی کوبھی کٹہرے میں اس وقت کھڑاکیا جاسکتاہے ۔ جب وہ دہشت گردی کے خلاف موجودہ لڑائی میں ساتھ نہ دے رہاہواوراس کی مخالفت نہ کررہا ہو۔ غلط باتوں سے غلط لوگوں کامقصد پوراہوتاہے اور بلاوجہ ملک کا ماحول خراب ہوتا ہے، اس لئے ان سے پرہیز کرناچاہئے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS