کلبرگی (پریس ریلیز)
ناول نگار معاشرے کے مسلمہ اصول پر قناعت نہیں کرتا بلکہ وہ مزاحمتی نقطہئ نظر سے سماج کا مطالعہ کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناولوں میں تہذیبی وفکری تصادم ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ایک ناقد کے لیے کسی ناول پر اظہار خیال اتنا آسان نہیں، جتنا کہ آج سمجھ لیا گیا ہے۔ خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی کلبرگی، شعبہ اردو کے تحت جاری چھ روزہ لیکچر سیریز کے پہلے لیکچر”ناول تنقید کا اختصاصی پہلو“ میں مشہور ناقد و ادیب پروفیسر صفدر امام قادری نے مذکورہ باتیں کہیں۔ انھوں نے کہا کہ ناول کی ہیئت متعین نہیں ہے۔اس لیے اس کی تنقید دیگر ادبی اصناف کی طرح آسان نہیں۔ ناول کا مجموعی مزاج سمجھے بغیر ناول کی تنقید لکھی نہیں جاسکتی ہے۔کیوں کہ کم تر سے کم تر ناولوں میں بھی بہت زیادہ گہرائی ہوتی ہے۔مگر افسوس کی بات ہے کہ جس طرح ناول کے ناقدین عجلت کے شکار ہیں،اسی طرح ناول نگاروں کی شہرت پسندی نے فنِ ناول اور ناول تنقید کو نقصان پہنچایا ہے۔ پروفیسر قادری نے کہا کہ ناول میں فکر کے علاوہ انسانی سوز کا معاملہ بھی پوشیدہ ہوتا ہے، اس سوز کو اجاگر کیے بغیر ناول کا رزمیہ پہلو سامنے نہیں آسکتا ہے۔
صدر شعبہئ اردو خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی کلبر گی پروفیسر عبدالحمید اکبر نے اپنے صدارتی خطبے میں ناول تنقید کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ناول کی تفہیم کے لیے تہذیبی شعور کا پیدا کرنا لازمی ہے۔ ناول کو موضوعاتی تناظر میں دیکھنا ناول تنقید کے لیے سود مند نہیں ہے۔ڈاکٹر اطیع اللہ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو کے بی این یو نے نظامت کے فرائض انجام د ئے۔تقریبا چار درجن افراد نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ جس میں سے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی،ڈاکٹر افشاں دیشمکھ، ڈاکٹر میمونہ بیگم سرڈگی، ڈاکٹر شہباز ارشد، نسرین فاطمہ،شیخ سراج الدین،انزیلہ عروج، محسنہ خاتون، عابدہ پروین،ڈاکٹر افشاں بانو،حمیرا بیگم، فرحان ضیا، عبدالرزاق، فرحت صغیر، محمد مجاہد، لبنی ثمرین، ڈاکٹر انصر،محمد فرقان،فاطمہ خاتون،ندا نوشین، ام کلثوم، شہناز حبیب، شکیلہ بانو، نورصبا، نیلو فر اختر، شگفتہ یاسمین، ساجد حسین ندوی، شگفتہ ناز، نازیہ تبسم، رئیسہ فاطمہ، عطاء اللہ انصاری، نازیہ اعجاز، شہناز سلطانہ ترنم جہاں،سمیہ شیخ وغیرہ اہم ہیں۔