آلودگی، تعلیم کا بھی گھٹ رہا ہے گلا

0

گزشتہ کچھ دنوں سے دہلی اور اس کے قرب و جوار میں آب و ہوا کے تعلق سے لوگوں میں عجیب و غریب بے چینی پائی جارہی ہے۔ہوا کا معیار انتہائی خراب زمرے میں پہنچ گیا ہے جس نے لوگوں کو ان کی صحت کے تعلق سے فکرمند کردیا ہے،وہیں انہیں اپنے بچوں کی تعلیم کے تئیں فکر بھی ستانے لگی ہے۔فضائی آلودگی کے مسلسل ہائی زمرے میں برقرار رہنے کی وجہ سے اسکول کئی دنوں سے بند پڑے ہیں کیونکہ عدالت نے آن لائن کلاسیز شروع کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔حالانکہ اب عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں نرمی اختیار کی اور آن لائن کلاسیز کے ساتھ بچوں کو اسکول میں فزیکلی طور پرپڑھائی کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ اس سے اسکولوں بلکہ سرپرستوں نے بھی کچھ راحت کی سانس لی ہے۔لیکن والدین کی الجھن ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور ان کی فکر برقرار ہے۔ کیونکہ آلودگی ابھی پوری طرح سے ختم تو کیا ہوگی،آئندہ دنوں میں اس کے مزید بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ آج اگرچہ اے کیو آئی 300 کی سطح پر درج کیا گیا ہے،لیکن اسے ابھی اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتااوراس کے جلد مزید نیچے آنے کے امکانات بھی نہیں ہیں۔بلکہ کہا تو یہ جا رہاہے کہ حالات اور سنگین ہوسکتے ہیں اور اس سے لوگوں کی مصیبتیں بڑھ سکتی ہیں، خواہ وہ روز مرہ کے کاموں کے تعلق سے ہوں یاپھر صحت کی بات ہو۔یہ بات غلط نہیں کہ سانس کے مریضوں کا اسپتالوں میں حالیہ دنوں کافی اضافہ درج کیا گیاہے تو وہیں دوسری طرف دوسرے شعبے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے۔ سب سے زیادہ نقصان بچوں کی پڑھائی کا ہورہا ہے۔گھر میں وہ ماحول نہیں بن پاتا کہ بچہ یکسوئی سے تمام سبجیکٹ کی کلاسیز اٹینڈ کرسکے۔دوسری طرف آف لائن اور آن لائن دونوں طریقہ سے کلاسیز کی رعایت ملنے سے بچے اور ان کے والدین اس کشمکش میں پڑگئے ہیں کہ وہ پڑھائی گھر سے کریں یا اسکول جائیں۔ ایسے میں کچھ اسکولوں میں حاضری متاثر ہو رہی ہے تو کچھ اسکول پوری طرح سے کھل نہیں سکے ہیں، اس لیے کہ آئندہ دنوں میں آلودگی کے بڑھنے کے امکانات کی خبریں انہیںکو ئی حتمی فیصلہ نہیں لینے دے رہی ہیں۔

در اصل سپریم کورٹ نے سی اے کیو ایم کو گریب-4 کے تحت عائد پابندیوں پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ فکر بھی ظاہر کی تھی کہ اسکولوں اور آنگن واڑیوں کے بند ہونے کی وجہ سے طلباکی ایک بڑی تعداد مڈ ڈے میل کی سہولت سے محروم ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ بعض طلبا ایسے بھی ہیںجنہیں آن لائن تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی سہولیات میسر نہیں ہیں تو وہیں بہت سے تعلیمی اداروں میں بھی آن لائن تعلیم فراہم کرنے کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہو ئے دہلی حکومت نے سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کو ہائبرڈ موڈ میں کلاسیز شروع کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جس پر عمل درآمدگی شروع ہوگئی ہے۔لیکن اسکولوں کے کھلنے کے باوجود بہت سے طلبا اب بھی فزیکلی طور پر کلاس اٹینڈ نہیں کر پا رہے ہیں۔اس طرح سے سرپرستوں، والدین اور اساتذہ کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ان کا سوال ہے کہ یہ صور ت حال اور کتنے دن برقرار رہے گی اور بچوں کی تعلیم اورکتنی متاثر ہوتی رہے گی۔ایسے میں کئی سوال ذہنوں کو جھنجوڑ رہے ہیں جن کا جواب ملنا شاید مشکل نظر آتا ہے۔بڑا سوال یہ ہے کہ جب ہر سال آلودگی دہلی والوں پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے تو وقت رہتے اس کی تدابیر کیوں نہیں کرلی جاتیں،کیا گریب سسٹم کا نفاذ آلودگی کے عفریت سے نجات دلانے میں کار گر ثابت ہوگا،یا یہ ترکیب ہماری صرف دلی تسلی ہے؟ ہر سال دیکھا جاتا ہے کہ اکتوبر اور نومبر کے ماہ میں آلودگی بڑھنے کے تعلق سے چیخ و پکار مچتی ہے اور پھر کچھ دنوں بعد پانی کے بلبلہ کی طرح یہ مسئلہ دب جاتا ہے،لیکن اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔ سڑکوں پرپانی کی بوچھار کرنا،کلائوڈ سیڈنگ اور اسموگ ٹاور کے بلند بانگ دعوے کرکے اور ایک دوسری پارٹیوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر دہلی کے عوام کو دھو کہ نہیں دیا جا سکتا۔ دہلی حکومت نے ایل جی کو حال ہی میں کلائوڈ سیڈنگ کے لیے جو خط بھیجا تھا اس پر کیا کوئی نوٹس لیا گیا اور دہلی حکومت کو جواب دیا گیا؟بہرحال اس تعلق سے متعلقہ اداروں کو سنجیدگی اور مستعدی دکھانے کی ضرورت ہے۔دہلی کے عوام گیس چیمبر میں سانس لینے پر مجبور ہیں اورجیسے تیسے گزر بسر کررہے ہیں۔ انہیں مختلف طرح سے ہنگامی حالات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اور گھٹن دہلی والوں کامقدر بن گئی ہے۔ اس پر اگر جلد وقت رہتے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو لوگوں کی زندگیاں خطرہ میں پڑجائیں گی۔ان سے جھوٹے وعدے ان کے حقوق کے ساتھ ایک مذاق ہے۔حقیقت میں دیکھا تو یہ گیا ہے حکومت کے ذریعہ تمام تر حربے آزما لینے کے باوجود بھی دہلی میں آلودگی کی سطح جوں کی توں برقرار ہے تو پھر آخر وہ کون سا نسخہ کیمیا ہے جو آزمانے سے رہ گیا؟ بلا شبہ ہوا میں گھٹن،بچوں کی تعلیم کا بھی گلا گھونٹ رہی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS