وزیر اعظم کی طرف سے خواجہ ؒکی درگاہ بھیجی گئی چادر پرسیاست : شاہد زبیری

0

شاہد زبیری

ہمارے ملک میںووٹ کی فرقہ وارانہ سیاست نے رہی سہی نظریاتی اور اصولی سیاست کا بالکل ہی خاتمہ کر دیا ہے۔آج حال یہ ہے کہ ووٹ کی خاطر مندر مسجد کی سیاست کیوجہ سے سنبھل سے اجمیر تک پورے ملک میں فرقہ واریت کی زہریلی اور گرم ہوائیں چل رہی ہیںجو ہمارے قومی اتحاد ، آپسی بھائی چارہ، صدیوں پرانی مذہبی رواداری کی روشن روایت سب کو جھلسارہی ہے۔ ابھی آر ایس ایس کے سر سنگھ سنچالک کے مندروںکے نیچے مندروں والے بیان کے اعادہ پر مخالفت اور حمایت کو لے کر سنگھ کے انگریزی ترجمان آرگنائزر اور ہندی ترجمان پانچ جنیہ کے متضاد اداریوں پرِ بحث جاری تھی کہ حضرت خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری ؒکی درگاہ پر وزیرِ اعظم کی طرف سے چڑھائی جانے والی چادر کی رسمِ ادائیگی پر سیاست تیز ہوگئی ہے۔ گودی میڈیا بھی چادر چڑھائے جا نے کو مودی سرکار کی اقلیتوں کے تئیں ہمدردی کے روپ میں پیش کررہا ہے۔ بی جے پی اور اس کا ساتھ دے رہی لوکدل پارٹی بھی اس کو مودی جی کے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے فارمولے کا حصہ بتا رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے نریندر مودی ایسے پہلے وزیرِ اعظم ہیں جو خواجہؒکی درگاہ پر خواجہ ؒ سے اپنی عقیدت کے طور یہ چادر چڑھا رہے ہیں اور مسلمانوں پر احسان کررہے ہیں حالانکہ نریندر مودی بھی ایسا پہلی مرتبہ نہیں کررہے ہیں جب سے وہ مرکز میں اقتدار میں آئے ہیں ان کی طرف سے یہ گیارھویں چادر شریف ہے۔ چادر کو درگاہ پر چڑھا نے جانے کی ذمّہ داری مرکزی وزیر کابینہ کرن رجیجو اور بی جے پی کے اقلیتی سیل کے قومی صدر جمال صدیقی کو سو نپی گئی تھی اور انہوں نے 4جنوری کو یہ ذمّہ داری پوری کردی ہے ۔سب جانتے ہیں کہ خواجہ ؒ کی درگاپر چادر چڑھانے کی رسم کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ملک کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو سے لے کر اب تک کے پندرھویں وزیرِ اعظم نریندر مودی تک یہ رسم چلی آرہی ہے۔

اب ا س پر نام نہاد ہندو سینااور نام نہاد سناتن دھرم سنستھا اور ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا ہی نہیں بی جے پی بھی سیاسی طور پر اس کو بھنا نے میں لگی ہے ۔کہنے کو ہندو سینا کے صدر کوڈر ستارہا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے خواجہ ؒ کی درگاہ پرچادر چڑھانے کا منفی اثر ان کے مقدمہ پر پڑسکتا ہے جو اجمیر کی ضلع عدالت میںدائر ہے جس پر 24جنوری کو سماعت ہوگی۔ خوف کا یہی ڈرامہ ہندو سناتن سنستھا کے صدر اجے شرما کر رہے ہیں ان دونوں نام نہاد تنظیموں کی طرف سے اس بابت وزیر اعظم کو ایک تفصیلی مکتوب بھی ارسال کیا گیا تھااور کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم اس مرتبہ خواجہؒ کی درگاہ پر چادر نہ بھیجیں لیکن وزیرِ اعظم نے چادر کی رسم پھر بھی ادا کی ہے۔

دھیان رہے کہ 8صدی سے زائد عرصہ سے قائم اس قدیم درگاہ کی بابت وشنو گپتا کی طرف سے عدالت میں دائر مقدمہ میں وہی راگ الاپا گیا ہے جو ملک کے دیگر مساجد اور درگاہوں کے بارے میں ایڈووکیٹ جین بندھوؤں کی طرف سے الاپا جا رہا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ اتنے طویل عرصہ میں کسی مؤرخ کو یہ پتہ نہیں چلا کہ خواجہؒ کی درگاہ مندر توڑ کر بنائی گئی ہے ۔ممکن ہے کہ بھگوا مؤرخ پی این اوک نے خواجہؒ کی درگاہ کو لے کر ایسا کوئی دعویٰ کیا ہو جیسا کہ ان کی طرف سے تاج محل اور قطب مینار کے بارے میں کیا گیا ہے کہ تاج محل اور قطب مینار پہلے مندر تھے محکمۂ آثارِ قدیمہ کے لائق ا فسران کوبھی اس کی نہیں سوجھی کہ درگاہ کے نیچے کوئی مندر ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس سارے فساد نے آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لیا یہ سارا فسانہ اسی تنظیم کاگھڑا ہوا ہے اس تنظیم کی پاٹھ شالہ کے تربیت یافتہ نام نہاد مؤرخ پی این اوک نے سب سے پہلے یہ من گھڑت کہانیاں بیان کرنی شروع کی تھیں جس کی بنیاد پر سنگھ کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد نے اپنے جھوٹ کی عمارت تعمیر کی اور 3ہزار سے 30ہزار مسجدوں کے نیچے مندروں کے ہونے کا جھوٹا اور فرقہ وارا نہ پرو پیگنڈہ شروع کیا اوربی جے پی کی رام مندر تحریک نے اس جھوٹے پرو پیگنڈہ کو ا تنا مضبوط کیا کہ بابری مسجد اور مندر تنازع میں تمامتر شواہد بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باجود سپریم کورٹ کی بنچ نے بھی ’آستھا ‘ کی بنیاد پر بابری مسجد کی بجائے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا اب مندر مسجد کی سیاست کا دائرہ درگاہوں تک وسیع ہو گیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے کچھ بھائی برادر، کچھ دانشور ان بیانات کو اور وزیرِ اعظم کی طرف سے بھیجی جانے والی خواجہ ؒ کی دگاہ کی چادر اور موہن بھاگوت کے بیانات کوسنگھ پریوار کی ماہیئت قلب تصور کرتے ہوں ہماری نظر میں یہ بھگوا بریگیڈ کی سو چی سمجھی حکمت عملی ہے جس پر سنگھ پریوار اپنے قیام 1925سے عمل پیرا ہے ۔

اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے کہ آج سنگھ پریوار کے پاس اتنی بڑی بھگوا بریگیڈ ہے جو دنیا کی کسی دوسری تنظیم کے پاس نہیں ہے۔ حال فی الحال میں وزیرِ اعظم یا سنگھ پریوار کی طرف سے جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ بھی اسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے جس میں سب کے کام تقسیم ہیں سب اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر اپنا اپنا کام کررہے ہیں مقصد سب کا ایک ہی ہے وہ یہ کہ مسلم دشمنی کے ذریعہ ہندو اکثریت کو اپنے پالے میں رکھنا اور ہندو راشٹر کا قیام کرنا اور موجودہ سیکولر آئین سے چھٹکارا پانا بعض جہاندیدہ اور حالات پر نظر رکھنے والوں کی مانیں تو ہندوستان عملی طورپر قریب قریب ہندو راشٹر بن ہو چکا ہے جس کے نظارے چشمِ بینا دیکھ سکتی ہے۔ مسلم یا عیسائی اقلیت کو لے کر موہن بھاگوت کا پیار جو وقتِ ضرورت امڈ پڑتا ہے وہ خالی از علّت نہیں اس سے سنگھ اور بی جے پی کا مقصد کنفیوژن پھیلانا ہے ۔ورنہ کیا وجہ ہے سنگھ کا انگریزی ترجمان’آر گنائزر ‘بھاگوت کے مسجد وں کے نیچے مندر ڈھونڈنے والے بیان سے اختلاف کرتا ہے اور مسجدوں کے نیچے مندروں کی تلاش کو ہندو سنسکرتی اور تہذیبی لحاظ سے ضروری مانتا ہے جبکہ سنگھ کا ہندی ترجمان ‘پانچ جنیہ ‘ بھاگوت کے بیان کی حمایت کرتا ہے ۔

یہ سچ سب جانتے ہیں کہ سنگھ پریوار اور اس کے دست وبازو وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل ان سب کے نشانہ پر روزِ اوّل سے پہلے نمبر پر مسلم اقلیّت اور دوسرے نمبر پر عیسائی اقلیّت ہے ۔بی جے پی بھی 80-20کا کھیل کھیل رہی ہے سر سنگھ سنچالک کے بیانات کے بعد آخر کیا وجہ ہے کہ یوپی سرکار پر کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سنگھ کے چہیتے ہیں پھر بھی مسجدوں کے نیچے شیولنگ کی کھوج سرکار کی سرپرستی میں جاری رہی جب تک کہ سپریم کورٹ نے عارضی پابندی نہیں لگا ئی یہ پابندی بھی 17 فروی تک ہے اور اس کے بعد کیا ہوگا نہیں معلوم۔سپریم کورٹ نے مودی حکو مت سے 1991کے عبادتگاہ ایکٹ پر اس کا مؤقف پوچھا ہے تین سال پہلے بھی پوچھا تھا لیکن مودی سرکار نے کوئی جواب نہیں دیاتھا جواب تو آج نہیں کل سرکار کو دینا پڑے گا گرچہ یہ سرکار کے لئے بڑی آزمائش ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے ۔ جو سیاست ملک میں ہو رہی ہے مسلمان اس کے مرکز میں ہیںاور موہن بھاگوت مسلم اقلیت اور عیسائی اقلیت کی بابت جو من موہک بیا نات دے رہے ہیں اس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرا نا ہے کہ سنگھ پریوار اقلیت مخالف آرگنا ئزیشن نہیں ہے اور نہ کوئی فاسسٹ تنظیم ہے ۔

سنگھ جانتا ہے کہ دنیابھر کی اقلیتوں کے حقوق کیلئے امریکی حکومت کے تحت کام کر نے والی تنظیم گزشتہ ایک سال میں ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں دو مرتبہ منفی رپورٹ دنیا کے سامنے پیش کر چکی ہے ہر چند کہ ہماری وزارتِ خارجہ نے ان رپورٹوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔دنیا کے 57مسلم مما لک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کی آمدنی ہمارے ملک کی شرح نمو میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک وزیرِ اعظم نریندر مودی کو سب سے بڑے قومی اعزا زات سے نواز چکے ہیں ۔ یہ بات سنگھ اور ہماری سرکار سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے ۔ سنگھ اور بی جے پی کو معلوم ہے کہ آج نہیں تو کل جو کچھ مسلم اقلیت کے ساتھ ملک میں ہورہا ہے۔ اس سے ملک کی ہی نہیں ان کی بھی شبیہ مجروح ہو رہی ہے ۔دہلی اسمبلی کے انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے اور بہار میں آئندہ سال انتخابات ہونے ہیں اور نتیش کمار بھی ناراض دکھائی پڑتے ہیں چنانچہ ان دنوںخواجہؒ کی درگاہ پر چادر کی سیاست تیز ہوگئی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS