پروفیسر عتیق احمدفاروقی
قومی دارالحکومت دہلی میں ایک معروف اخبار نے اپنی 31مارچ کی اشاعت میں بتایاہے کہ سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے ذریعے 1974ء میں کچاتوونامی جزیرہ سری لنکا کو سونپنے کامسئلہ لوک سبھا انتخابات میں تمل ناڈومیں ایک بڑا مدعہ بن سکتاہے۔ تمل ناڈو کے بی جے پی کے صدر کے انّاملائی سے ملے دستاویز کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان نے سری لنکا کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اوربرسوں تک دعویٰ جتانے کے بعد کچا تووسری لنکا کے حوالے کردیا۔ بعدازاں وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے دوٹوئٹ کئے گئے۔ پہلے میں کانگریس پر حملہ بولاگیا اورکہاگیا کہ نئے حقائق سے پتہ چلتاہے کہ کانگریس نے کتنی بے رحمی سے کچاتووسری لنکا کو سونپ دیا۔ ٹوئٹ میں آگے لکھاگیاہے کہ کانگریس پر کبھی بھروسہ نہیں کیاجاسکتاکیونکہ وہ ہندوستان کے اتحاد اورسالمیت کو کمزور کرتی رہی ہے۔
دوسرے ٹوئٹ میں ڈی ایم کے حکومت کو گھیرا گیا اورکہاگیاکہ اس نے ڈی ایم کے کے دوہرے کردار کی پول کھول دی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ ایم کرونا ندھی کو ہندوستانی حکومت کے اس فیصلے کی مکمل واقفیت تھی۔ وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے بھی کہا کہ تمل ناڈو کے لوگوں کو اس وقت کی دونوں حکومتوں نے گمراہ کیا۔ انہوں نے صحافیوں کو یہ معاملہ سمجھانے کے لیے پریس کانفرنس بھی کی۔ظاہر ہے کہ قومی اخبارات میں یہ مدعہ جلد ہی سرخیوں میں آگیا۔حالانکہ تمل ناڈو کے ٹی وی چینلوں نے اس خبر کو متوازن بنانے کے لیے ریاست کے کانگریس وڈی ایم کے لیڈران کا رد عمل بھی دکھایا۔ بی جے پی لیڈر اس بات کو بھی زور شورسے کہہ رہے تھے کہ کیسے تمل ناڈو کے غریب مچھواروں کے مفاد سے سمجھوتہ کیاگیا۔ ظاہر ہے کہ اس مدعے کو ہوا دینے کی بنیادی وجہ تمل ناڈو کے رائے دہندگان خصوصاًساحلی علاقوں میں رہنے والے مچھواروں کو اپنی طرف راغب کرناہے۔ کچاتووماضی میں تمل ناڈو میں ایک جذبات انگیز مدعہ رہاہے۔ رامیشورم کے مچھواروں نے اس جزیرے کے پاس مچھلی پکڑنے سے متعلق حقوق اوراپنے جال سکھانے اورکشتیوں کی مرمت کی سہولت کامطالبہ کیاتھا۔یہ مدعہ 1980سے 1990ء کی دہائی میں صوبائی سیاست میں اکثراٹھتارہاجس میں ڈی ایم کے اورانّادرمک ایک دوسرے پر مچھواروں کے حقوق کو ختم کرنے کا الزام لگاتے رہے سابق وزیراعلیٰ جے للتانے مرکز کو خط لکھ کر کہابھی تھا کہ اس جزیرہ کوسری لنکاسے واپس لے لیاجاناچاہیے، مگر گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ وقت سے یہ کوئی مدعہ نہیں رہاتھا کیونکہ مچھواروں کے پاس اب بہتر مواصلاتی سہولت اور معیاری کشتیاں آگئی ہیں وہ اب کچاتووکے آس پاس نہیں جاتے ہیں جہاں ان کے مچھلی پکڑنے پر پابندی ہے اس کے بجائے وہ اب گہرے پانی میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ سری لنکا کے ساحلوں کے قریب بھی پہنچ جاتے ہیں اوروہاں کے سلامتی اہلکاروں کی ناراضگی مول لیتے ہیں ۔ بدقسمتی سے مچھواروں کی گرفتاری ہندوستانی کشتیوں کی ضبطی اور ہندوستانی مچھواروں پر گولی باری کی نوبت آجاتی ہے جن سے دونوں پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا ہوتی رہی ہے۔ عجیب بات ہے کہ تمل ناڈو میں مچھواروں کا مدعہ اورسری لنکائی تملوں کے قتل عام جذباتی مدعے رہے ہیں لیکن ان کا کبھی بھی ریاست یا قومی انتخابات پر کوئی اثرنہیں پڑا۔پھربھی یہ مدعہ لگاتار سیاسی بحث میں بنارہاہے دراصل جو پارٹی صرف سری لنکاکے مسئلے یا مچھواروں کے مدعوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں وہ عوام میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ تمل ناڈوکا ایک بڑاطبقہ حیران ہے کہ بی جے پی نے آخراس مدعے کو ابھی کیوں اٹھایاہے ، کیونکہ اس کا مقصد کانگریس اوراس کے علاقائی حلیف ڈی ایم کے کو گھیرنے کے علاوہ کوئی اوروجہ نہیں دکھتی ۔بی جے پی یہی بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ حزب مخالف اتحاد کس طرح ملک کے قومی مفاد سے سمجھوتہ کرچکاہے ۔ بی جے پی کی نظر کنیا کماری ،تھوتھکڑی ، ناگرکوئل ورام ناتھ پُرم جیسے ساحلی علاقوں کی لوک سبھا نشستوں پر ہے جہاں اسے لگتاہے مچھواروں کامدعہ مؤثرثابت ہوگا اگراس معاملے پر نظرڈالیں تو قریب 1.9مربع کلومیٹر کا یہ جزیرہ ہندوستان اورسری لنکا کے بیچ برطانیہ کے قبضہ سے آزاد ہونے سے بہت پہلے متنازعہ تھا چونکہ برطانیہ کی حکومت اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکی، اس لئے اس نے دونوں فریقین کے ماہی گیروں کو جزیرہ پر جانے کی اجازت دے دی۔ اس لئے کچاتوو کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ آزادی کے بعد جب یہ مدعہ دوبارہ اٹھا تو 1974ء میں لمبی بحث کے بعد ہندوستان اورسری لنکا کے درمیان بین الاقومی سمندری سرحد متعین کردی گئی اورہندوستان نے اس جزیرے پراپنا دعویٰ چھوڑدیا۔ اس میں فریقین کے ذریعے وہاں مچھلی پکڑنے کا سمجھوتہ ہوا۔ سال 1976ء میں دونوں ممالک کے بیچ خصوصی اقتصادی علاقہ بنا جس کی وجہ سے ہندوستان نے مچھلی پکڑنے کا اپنا حق واپس لے لیا دراصل ہندوستان نے کنیا کماری کی طرف سے واڈزبینک کے لیے سودے بازی کی۔چونکہ سری لنکا کو کچاتوومل گیا اس لئے اس نے اس پر کوئی دعویٰ نہیں کیانتیجتاًہندوستان کو سمندرمیں نسبتاًبڑا حصہ ملا اوریہاں مچھلی بھی خوب پائی جاتی ہیں ، کچھ مشاہدین تواس کے لیے اندرا گاندھی کی تعریف کرتے ہیں، کیونکہ یہ علاقہ تیل ومعدنی اشیاء سے بھی بھراپڑاہے۔
چونکہ کچاتوو ڈی ایم کے اورانّادرمک دونوں کے لیے متنازعہ ہے اس لئے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاکر اورمرکز کو بھی گھیرے میں لے کر ساحلی علاقوں کے رائے دہندگان کو لبھانا چاہتی ہیں ،آج بھی یہی سب ہورہاہے ، واڈز بینک کوئی جزیرہ نہیں ہے بلکہ اِکوسسٹم کے لیے ایک عام فقرہ ہے ۔دنیا میں ایسے بیس واڈز بینک ہیں ۔ ہندوستانی حکومت نے حال ہی میں یہاں تیل کی تلاش کی کارروائی شروع کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن مچھواروں کی مخالفت کے سبب اسے ملتوی کردیاگیا کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اس سے یہاں کے ماحولیات کو نقصان پہنچ سکتاہے۔ بیشک اس پورے مسئلے میں کوئی کانگریس پر شک کرسکتاہے یا اندرا گاندھی کو تنازعہ میں گھسیٹ سکتاہے لیکن یہ نہیں بھولناچاہیے کہ وہ اندرا گاندھی ہی تھیں جنہوں نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا اورسکم کو ہندوستان میں ملایاتھا۔
[email protected]
تمل ناڈو کے ایک ویران جزیرے پر سیاست: پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS