ریزرویشن کی سیاست اور سماجی انصاف کی بدلتی تصویر

0

عبدالماجد نظامی

سپریم کورٹ نے 7 نومبر2022کو جب سے ریزرویشن کے معاملہ پر اپنا فیصلہ سنایا ہے اور اونچی ذات کے اقتصادی طور پر کمزور طبقہ کو ریزرویشن دینے کی تصدیق کر دی ہے تب سے اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ کا ایک نیا دور پھر سے شروع ہوگیا ہے۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستان میں ریزرویشن کا معاملہ ہمیشہ تنازعات میں گھرا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ریزرویشن کی سیاست ہمیشہ جاری رہی ہے کیونکہ ہندوستانی سماج میں بنیادی طور پر ذات پات کی حیثیت سب سے زیادہ ہے۔ چونکہ ہندوستان اپنی شاندار قدیم تہذیبی تاریخ کے باوجود سماجی نابرابری پر مبنی معاشرہ رہا ہے جہاں ایک خاص طبقہ کو سماج کی درجہ بندی پر مبنی سماجی تقسیم کی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے، لہٰذا دستور ہند کو تیار کرنے والے قائدین اور دانشوروں نے اس بات پر خصوصی توجہ مرکوز کی کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ہمارا ملک جمہوری قدروں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا عزم کر رہا ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تاریخی غلطیوں کو سدھارا جائے اور جن طبقوں کو ترقی کے مواقع اب تک نہیں مل پائے ہیں ان کے لئے سہولیات مہیا کرائی جائیں تاکہ انہیں ترقی کے راستے پر چلنے کا حوصلہ مل سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یہ راستہ نکالا گیا کہ سماجی عدم مساوات کے خاتمہ کے لئے ان طبقوں کو ریزرویشن دیا جائے جن کے ساتھ تاریخی طور پر بڑی زیادتیاں ہوئی ہیں۔ ایسے طبقوں میں خاص طور سے ایس سی اور ایس ٹی کو دھیان میں رکھ کر انہیں ریزرویشن فراہم کیا گیا۔ جب نوے کی دہائی کا آغاز ہونے والا تھا تب منڈل اور کمنڈل کے بیانیہ نے بڑی تیزی سے جڑ پکڑنا شروع کیا اور بالآخر او بی سی کو بھی یہ ریزرویشن عطا کیا گیا۔ گرچہ یہ راستہ آسان نہیں تھا جس کی ایک طویل اور پر تشدد تاریخ ہے جس کو یہاں بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن جس پہلو پر عام طور سے نظر نہیں جاتی ہے یا جس پر عموماً میڈیا میں تبصرہ نہیں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ 1992 میں نرسمہا راؤ کی حکومت نے بھی اس کی کوشش کی تھی کہ اونچی ذات کے لوگوں کو ریزرویشن دیا جائے لیکن اس ڈر سے اس معاملہ کو زیادہ طول نہیں دیا گیا کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ میں اگر یہ معاملہ پہنچا اور اس پر جرح شروع ہوئی تو اس کا دفاع کرنا آسان نہیں ہوگا بلکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا بھی تھا جہاں اسے خارج کر دیا گیا تھا اور پھر وہ سرد بستہ میں پڑا رہا۔ لیکن2019جنوری میں نریندر مودی کی سرکار نے جب پارلیمنٹ میں اس بِل کو پیش کیا تھا تو محض تین دنوں کے اندر اس نے ایکٹ یا قانون کا درجہ اختیار کر لیا تھا تب ملک کی حالت بدلی ہوئی تھی۔ نریندر مودی کی سرکار نرسمہا راؤ کی طرح بیساکھیوں کے سہارے نہیں چل رہی تھی اور نہ ہی ہندو نیشنلزم کو وہ عروج حاصل ہوا تھا جس کا آغاز مودی کی آمد سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کی بعض پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان اپوزیشن پارٹیوں میں راشٹریہ جنتا دل، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور تمل ناڈو کی ڈی ایم پارٹی شامل تھیں۔ البتہ باقی پارٹیوں نے اس بِل کو اپنی حمایت دی تھی۔ ان کا اعتراض بس اس حد تک تھا کہ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے دستور میں 103 ویں ترمیم کے ذریعہ اتنی جلدبازی میں اس بل کو پیش نہ کیا جائے بلکہ اس کو پارلیمانی پینل کے پاس بھیج دیا جائے تاکہ بڑے پیمانہ پر رائے مشورہ کے ذریعہ آگے کا مرحلہ طے کیا جا سکے۔ اپوزیشن ممبران کو وہی فکر ستا رہی تھی جو کبھی نرسمہا راؤ کو درپیش تھی کہ کیا سپریم کورٹ کی جرح کے سامنے یہ قانون اپنا وجود باقی رکھ پائے گا؟ لیکن اب یہ معاملہ صاف ہوگیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار نے 9 جنوری 2019 کو پارلیمنٹ میں جس ای ڈبلیو ایس ریزرویشن بل کو پاس کروایا تھا اب اس پر سپریم کورٹ کی مہر تصدیق ثبت ہوگئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے ریزرویشن کے لئے 50 فیصد کی جو آخری حد متعین کی تھی، اس کو بھی اس نے اپنے اس فیصلہ سے کالعدم قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ جو تعلیم اور نوکری میں اقتصادی اعتبار سے کمزور طبقوں کو ریزرویشن فراہمی کے معاملہ کی سماعت کر رہی تھی، اس میں سے تین ججوں نے یہ فیصلہ دیا کہ دستور میں کی گئی 103ویں ترمیم درست ہے اور اس سے دستور کے بنیادی ڈھانچہ پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ اس کے برعکس دو ججوں نے اپنے اعتراضات درج کروائے جن میں سے ایک خود چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت تھے۔ اس ریزرویشن کا نام اس طرح رکھا گیا ہے کہ جیسے اقتصادی اعتبار سے کمزور کوئی بھی طبقہ اس سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ اس سے ہندوؤں میں صرف وہی لوگ مستفید ہوں گے جو اونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جن طبقوں کو پہلے سے ہی ریزرویشن حاصل ہے جیسے کہ او بی سی اور ایس سی/ایس ٹی وغیرہ تو ان کو اس سے استفادہ کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہندوؤں کا اعلیٰ طبقہ جو اب تک دوسری ذاتوں کو ملنے والی مراعات کو خیرات کا نام دیا کرتا تھا، اب خود اس سے مستفید ہونے کو تیار ہے۔ گویا اب کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس بل پر بحث کے دوران اسدالدین اویسی نے جو بات کہی تھی اس میں دم ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آخر میں اس بل کی مخالفت کیوں کر رہا ہوں؟ اس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو یہ ہے کہ یہ بل دستور کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ بل بابا صاحب امبیڈکر کی توہین ہے کیونکہ ریزرویشن کا اصل مقصد یہ تھا کہ سماجی انصاف مہیا کروا یا جائے اور سماجی و تعلیمی پسماندگی کو دور کیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ سماجی طور پر جو طبقے ان مسائل سے جوجھ نہیں رہے ہیں انہیں ریزرویشن دینا یقینا دستوری اصولوں کی ناقدری ہے۔ بہر حال ریزرویشن کا یہ جن اب بوتل میں نہیں جائے گا اور پرائیوٹ سیکٹرز میں بھی اس کا مطالبہ کیا جائے گا۔ امید ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقوں کی سماجی و تعلیمی پسماندگی کو دھیان میں رکھ کر انہیں بھی عملی طور پر ریزرویشن سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں سے زیادہ پسماندگی کا شکار شاید ہی کوئی طبقہ ہو جسے نہ تو سیاسی نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی جاب کے سیکٹر میں کوئی خاطر خواہ ان کی تعداد پائی جاتی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS