مرکز کی این ڈی اے حکومت کے لئے بیساکھی بنی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) اور تیلگودیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی حکمرانی والی ریاستوں بہار اورآندھراپردیش پر بجٹ میں ہوئی نوازشات ممکن ہے ان دونوں ریاستوں کے دیرینہ مطالبات کی تکمیل ہوں لیکن ان سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ مرکزغیر این ڈی اے ریاستوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہا ہے ۔مرکز کے اس اقدام سے غیر این ڈی اے ریاستیں مایوس ہیں۔ مرکز کے اس عمل کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ ملک کے وفاقی نظام کو گہرا دھچکا ہے۔ ملک پر حکمرانی کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت بی جے پی نے گزشتہ10برسوں میں مختلف اقدامات کے ذریعہ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
ہندوستان کی وسعت اور تنوع کا تقاضا ہے کہ یہاں ایک ایسانظام روبہ عمل ہو جو ہرخطہ کا تقاضاپورا کرتا ہو۔پالیسیوں اور نفاذ کے لحاظ سے حکمرانی کے تقاضے تمام خطوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ وفاقی ڈھانچہ ہی حکومت کی مختلف سطحوں کو ان کیلئے موزوں ترین شعبوں پر کام کرنے کیلئے ضروری لچک فراہم کرسکتا ہے۔ اس وفاقی ڈھانچے میں طاقت اور ذمہ داری حکومت کی مختلف سطحوں میں تقسیم ہوتی ہے۔آئین بنانے والوں نے اسی کو مدنظر رکھ کرسیاسی طرز حکمرانی کے اس وفاقی نظام کا انتخاب کیا۔ جو ملک کی سالمیت کا سبب ہے اورآج بھی مختلف ریاستوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے ہوئے ہے، لیکن بی جے پی تنوع میں اتحاد کے فلسفہ کے خلاف ہے اور وفاقی ڈھانچہ کا انہدام اس کی دلی آرزو بنی ہوئی ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں سے جب جب موقع ملا ہے وفاقی ڈھانچہ پر ہتھوڑا برسانے کا کام کیاگیا ہے ۔ یہ عام بجٹ بھی اسی کا تسلسل ہے۔صرف دو ریاستوں پر مہربانی سیاسی مقاصد کا کھلا مظہر ہے ۔
وفاقی نظام میں فنڈز جمع کرنے کے ساتھ ساتھ خرچ کرنے کی طاقت مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں اور مقامی حکومتوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ ان تینوں سطحوں کی حکومت کو مختلف ٹیکسوں اور غیر ٹیکس ذرائع سے وسائل اکٹھا کرنے اور ان وسائل کو مختلف شعبوں اور مسائل پر خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مرکزی سطح پر سب سے زیادہ محصولات کی وصولی ہوتی ہے جو پورے ملک کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے اوراسے ریاستوں کی انفرادی ضروریات کے مطابق ریاستوں میں تقسیم کیاجاتا ہے، لیکن عام بجٹ 2024-25 میں نہ توکہیں وسائل کی تقسیم میں توازن نظرآرہاہے اور نہ غیر این ڈی اے ریاستوں کی واجبات کی ادائیگی اور جائز ضروریات کی تکمیل کے لئے کشادہ دلی کا مظاہرہ نظر آرہا ہے۔ اس کے برخلاف بجٹ کا استعمال سیاسی حمایت اور سیاسی مقاصد کے لئے کیاگیا ہے ۔یادرہے کہ مودی حکومت آندھراپردیش کی ٹی ڈی پی کے 16 لوک سبھا ارکان اور بہار کی جے ڈی یو کے 12 لوک سبھاارکان کی طاقت پر قائم ہے اور ان دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کو مطمئن رکھ کر ہی مودی حکومت قائم رہ سکتی ہے اسی لئے دوسری ریاستوں کی جائز او ر ہنگامی ضروریات سے بھی صرف نظر کیا گیا اور بہار و آندھراپردیش کے وزرائے اعلیٰ کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انہیں مطمئن رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ حکومت قائم رہ سکے ۔
حالانکہ بجٹ میں قومی وسائل اور سرمائے کی تقسیم مکمل طور پر تفریق سے پاک ہونی چاہئے۔ اس کا پیمانہ اس بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے کہ کن ریاستوں میں اپنی پارٹی کی حکومت ہے یا اتحادیوں یا اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ہے کہاں سے حمایت ملے گی اور کہاں سے مخالفت کی جائے گی بلکہ اس کا پیمانہ ریاستوں کی انفرادی ضروریات ہونی چاہئے کیوں کہ مرکز کے پاس رقم اور سرمایہ مختلف ریاستوں سے آتا ہے اور یہ پورے ملک کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔اس تقسیم میں جانبداری نہ صرف اپوزیشن پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں عدم اطمینان پھیلائے گی اور مرکز سے ان کی یکجہتی اور ہم آہنگی کم ہوتے ہوتے نچلی سطح پرآجائے گی جس سے ملک کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہوگا اور ملکی اتحاد کیلئے خطرہ بھی بنے گا۔بجٹ کے ذریعہ سیاسی مفادات کی تکمیل کا کھیل وفاق اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ کانگریس نے بجاطور پرکہا ہے کہ یہ بجٹ مودی جی کا کرسی بچاؤ بجٹ، اقتدار بچاؤ بجٹ، بدلہ لو بجٹ ہے۔ اس بجٹ سے 90 فیصد ریاستوں اور 90 فیصد سے زیادہ عوام کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ مودی حکومت کا بجٹ صرف بی جے پی کا اقتدار بچاؤ بجٹ بن کر رہا گیا ہے۔
مرکز کا یہ اقدام وسائل سے محروم ریاستوں میں اضطراب اور بے چینی کا سبب بنا ہوا ہے۔اسی بے چینی کا اظہار گزشتہ دنوں ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس‘ (انڈیا) کی حلیف جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے کیا اوراگلے مرحلے میں کل ہفتہ کے روز ہونے والی نیتی آیوگ کی میٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔
[email protected]
بجٹ کا سیاسی استعمال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS