سری نگر، (یو این آئی) : پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) نے لوگوں سے جموں کشمیر میں خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے پرامن طریقے سے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی تنسیخ کے بعد لوگوں کی نوکریاں اور قدرتی وسائل پر ان کے حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔
پی اے جی ڈی کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جموں کشمیر کے لیڈروں کی کل جماعتی میٹنگ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی کیونکہ مرکزی حکومت نے دہلی اور جموں کشمیر کے لوگوں کے درمیان پیدا شدہ دوری کو پاٹنے کے لئے اعتماد سازی کے کوئی اقدام نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کا نیا کشمیر ایک مذاق ثابت ہوا ہے اور آج جموں کشمیر دہلی سے جس قدر دور ہیں، اتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’5 اگست کو آئین ہند پر ہونے والے حملے کے 2 سال مکمل ہوں گے جس حملے سے دفعہ 370 کو ختم کر کے جموں کشمیر اور ہندوستان کے درمیان رشتے کو زک پہنچایا گیا۔‘
ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’تاریخی ریاست جموں کشمیر کی حیثیت کو گھٹایا گیا اور اس کو 2 وفاقی ریاستوں میں منقسم کیا گیا۔ یہ فیصلے لوگوں کی مرضی کے برعکس لئے گئے۔ جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے 3 مارچ2004 کو منظور شدہ قرار داد کو بھی نظر انداز کیا گیا، اس سے یہ مثال قائم ہوئی کہ کسی بھی ریاست کو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔‘ بیان میں کہا گیا کہ دفعہ35 اے کی منسوخی سے جموں کشمیر کے مستقل باشندوں کی حیثیت کو بے کار بنا دیا گیا ہے اور نوکریوں اور اراضی کے حقوق کو ختم کیا گیا جس سے لوگوں میں عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔ پی اے جی ڈی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ جموں کشمیر کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے اور سیاحت، زراعت، دستکاری وغیرہ جیسے شعبے از حد متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں اور رشوت خوری کم نہیں ہو رہی ہے۔
موصوف نے اپنے بیان میں کہا کہ ’دفعہ 370 کی تنیسخ کے ساتھ ہی جمہوریت اور جمہوری حقوق کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، لوگوں کی نقل و حمل پر مسلسل پابندی اور میڈیا کو دبانے سے جبری خاموشی چھائی ہوئی ہے۔‘ بیان میں کہا گیا کہ ’گزشتہ 2 برسوں سے یہ بات روشن ہوئی ہے کہ حکومت ہند ایسے غیر قانونی اقدام اٹھانے پر کیوں بضد تھی۔ ان 2 برسوں کے دوران یہ دیکھا گیا کہ کس طرح لوگوں کو ٹکڑوں میں منقسم کیا جا رہا ہے ، ان کو نوکریوں سے محروم رکھا جا رہا ہے اور ان سے قدرتی وسائل پر حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔‘
موصوف ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’منفی پولیس رپورٹ کو عدالتی قانون کا نعم البدل نہیں مانا جا سکتا، یہ نظام انصاف کے مقدس اصولوں کے بالکل منافی ہے۔‘ انہوں نے بیان میں کہا کہ بی جے پی کا نیا کشمیر ایک مذاق ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ حکام کو سوال کر رہے ہیں۔ ان کا بیان میں مزید کہنا تھا کہ آج جموں کشمیر دلی سے جس قدر دور ہیں اتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا ہے ۔