سیاسی جماعتیں اور مسلمانانِ ہند: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

آج ہندوستان کا مسلمان خود کو ٹھگا ہوا اور بے بس و مجبور سمجھ رہاہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہندوستان کے مسلمان کی اہمیت ہی ختم ہوگئی ہے۔ جسے دیکھیں وہ مسلمانوں سے ہمدردی کر رہا ہے۔ آج مسلمان موجودہ سیاسی منظر نامے میں حاشئے پر جتنی دور کھڑا ہے، اس کے لیے جہاں دوسری سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں،مسلمان خود بھی اس کا ذمہ دار ہے۔

الگ الگ جماعتوں میں مسلمانوںکا جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ صاف اور واضح ہو جائے گا۔سب سے پہلے بی جے پی کو لیتے ہیں۔اس پارٹی کا وجود ہی مسلم دشمنی پر قائم ہے۔عام طور پر مسلمان بی جے پی کو کسی بھی سطح کے انتخاب میں ووٹ نہیں دیتے۔2014کے عام انتخاب میں بی جے پی بالکل نئے لب و لہجے اور رنگ میں سامنے آئی۔اس پارٹی کے ایم ایل اے ہوں یا ایم پی،کسی نے بھی مسلمانوں سے ہمدردی نہیں دکھائی۔ملک کی اکثریت کو ایک پلیٹ فارم پر لانا،بی جے پی کے لیے ایک چیلنج تھا،جسے انہوں نے بہ حسن و خوبی انجام دیا۔اس کام کے لیے انہوں نے ہندو مذہب کے لوگوں کو مذہبی امور کی طرف زیادہ مائل کیا، منادرکی تعمیر اور ان کی تزئین کاری،مخصوص پاٹھ شالائیں،آر ایس ایس کی شاکھائیں، رام اور کرشن لیلائوں کا شاندار اہتمام کیا تو دوسری طرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے خلاف اکثریت کو ورغلانا، حکومت کی مخالفت کو ’ دیش دروہ ‘ سے جوڑنا،مسجدوں،یادگاروں،درگاہوں کی غلط نیت سے کھدائی کرانا،مسلمانوں کے پرسنل معاملات میں دخل اندازی، ان پر بے جا پابندیاں لگانا،کبھی حجاب،کبھی مسجدوں پر مائک، طلاق ثلاثہ،وقف جائیدادوں،گوشت کی دکانوں،سڑکوں پر نمازیں،جلسے جلوس پر مختلف قسم کے ایکشن لینا وغیرہ ایسے معاملات ہیں،جن سے ایک طرف مسلمان ہراساں اور پریشان ہوتے ہیں تو دوسری طرف اکثریت والے خوش۔ بی جے پی کو اور کیا چاہیے ؟ اسے تو ملک میں نفرت کا ماحول بنانے میں ہی سکون ملتاہے۔اسے ووٹوں کا فائدہ ہو تا ہے۔گزشتہ 11سال سے زائد مر کز میں بی جے پی کی سرکار ہے۔ صوبوں میں سے بہت سوں پر اس کی حکومت ہے۔ تمام اعلیٰ عہدوں پر بی جے پی کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پہلے بھی بی جے پی کی مر کز میں حکومت رہی ہے،مگر یہ انداز نہیں تھا۔

مسلمانوں کے بھی بہت سے چہرے مختلف زمانوںمیں اس میں شامل رہے اور وزارتوں کابھی لطف اٹھاتے رہے۔ نجمہ ہپت اللہ، شاہنواز حسین، مختار عباس نقوی، وسیم رضوی،محسن رضا وغیرہ بی جے پی کے اہم لیڈر اور مسلم چہرے رہے ہیں۔گورنر عارف محمد خان اور سابق صدر جمہوریہ عبدالکلام بھی بی جے پی کے مسلم چہرے ہیں۔ ویسے سیکڑوں مسلمان مقامی،صوبائی اور نیشنل سطح پر مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔اسی طرح بہت سے کمشنرز، پریشد، نگم اور بورڈس میں ممبران مسلم ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو اوپر سے نیچے تک بی جے پی میں مسلم چہروں کی کمی نہیں۔مگر یہ سبھی حاشیائی لوگ ہیں۔بی جے پی کی کسی سطح کی فیصلہ لینے والی کمیٹی میں نہیں۔مسلم چہرے نہ تو ہندو کی حمایت والے فیصلے میں،نہ ہی مسلمانوں کے خلاف ایکشن طے کرنے والی کمیٹی میںہیں۔ بی جے پی کے کسی فیصلے کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔نہ ہی کسی مسلمان کی حمایت کرسکتے ہیں۔رمضان کے مہینے میں کوئی افطار پارٹی نہیں۔عید کے موقع پر کوئی عید ملن نہیں۔الغرض مسلمانوں کے کسی تہوار میں،کسی بڑے جلسے جلوس کا انعقاد بغیر ہائی کمان کے ممکن نہیں۔ہولی دیوالی پر درسگاہوںمیں تین چار دن کی تعطیل،دوسر ی طرف عید،بقر عید کے موقع پر مشکل سے ایک دن کی تعطیل۔خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عرس،یوم شہادت علیؓ اور جمعۃ الوداع کی چھٹی کو ختم کیا گیا۔ بی جے پی کے کسی مسلم ممبر نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔دراصل مسلم ممبران کی کوئی بڑی حیثیت نہیں،ان میں سے زیادہ تر ذاتی مفادکی خاطر بی جے پی میں ہیں۔قوم کے فائدے کا تو سوال ہی نہیں۔

ہندوستان کی بڑی سیاسی جماعت ’ کانگریس‘ ہے۔یہ واحد پارٹی ہے جس کی تاریخ بہت پرانی ہے اور جس نے ملک کو ہر اعتبار سے ایک کیا اور انگریزوں سے لوہا لیا۔ آزادی سے قبل اور بہت بعد تک بھی کانگریس میں مسلمانوں کو افتخار کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائزبھی کیا جاتا رہا ہے۔ صدر جمہوریہ، نائب صدر، پارٹی صدر،گورنر،وزرائے اعلیٰ،مرکز اور ریاست میں وزرا،الیکشن کمشنر آف انڈیا،ججز،ایمبسڈرز غرض ہر بڑے عہدے پر مسلمان ہوتے تھے۔لیکن 1992 میں بابری مسجد کے انہدام نے سب کچھ بدل دیا۔مسجد کے انہدام کے وقت مرکز میں نرسمہا راؤ اور یوپی میں کلیان سنگھ کی حکومت تھی۔مسجد مسمار کرنے والے شر پسند عناصر تھے۔ ان کے سرپر مذہبی جنون سوار تھا۔ان سب کے باوجود مرکز اسے روک سکتا تھا،مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔لیکن اس واقعہ نے مسلمانوں کے مردہ ضمیر کو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔مسلمانوں اور کانگریس میںہمیشہ کی ایک خلیج پیدا ہوگئی۔شروع میں یہ خلیج ہر 6دسمبر کو وسیع ہوتی گئی اور مسلمانوں کے دلوں میں نفرت بڑھتی گئی۔نر سمہارائو کے بعد منموہن سنگھ کی دو بار حکومت رہی۔اب یہ خلیج بڑھنے کے بجائے رک گئی اور راہل گاندھی کی محنت نے اس خلیج کو بہت حد تک کم کرنے کا کام کیا۔مگر کسک اور درد اب بھی باقی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ راہل گاندھی،پرینکا گاندھی، ملکارجن کھرگے سیکولر مزاج ہیں۔لیکن ایک بات بہت کھٹکتی ہے کہ کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے مل کر ایک پلیٹ فارم ’’ انڈیا‘‘ تشکیل دیا تو اس میں مسلم سیاسی جماعتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔جموں و کشمیر تو ان کی مجبوری تھی۔یہی نہیں کانگریس نے مسلم مسائل اُٹھانا تو دور،کبھی ان کی کھل کر حمایت نہیں کی۔فسادات ہوں، ہجومی تشدد ہو (راجستھان میں کانگریس کی حکومت کے زمانے میں پہلو خان کا واقعہ ہوا۔ کانگریس نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا)، تین طلاق کا معاملہ ہو، 370کی بات ہو، حجاب یا مسجدوں سے مائک اتارنے کا واقعہ ہو۔ اور بہت سے مسائل ہیں۔ کانگریس نے اس کی پر زور مخالفت نہیں کی۔ ہاں وقف معاملے میں بات الگ ہے۔اس میں بھی یہ مصلحت تھی کہ مسلمان کثیر تعداد میں اس کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آئے تھے اور یہ معاملہ حزبِ مخالف کی عزت کا سوال بن گیا تھا۔ راہل،پرینکا،کھرگے اور کانگریس کے بڑے لیڈروں کی زبان پر کھل کر مسلمان لفظ نہیں آتا۔ دوسری طرف انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ بابری مسجد کے انہدام یا کسی اور موقع پر کانگریس کے مسلم ممبران نے مرکزی سطح اور نہ ہی صو بائی سطح پر اجتماعی استعفیٰ دیا۔

سماج وادی پارٹی جس کے سربرا ہ ملائم سنگھ یادو تھے، جنہیں مسلمانوں کا مسیحا کہا جاتا تھا،کچھ لوگ انہیں ’’ ملّا ملائم سنگھ ‘‘ بھی کہتے تھے۔یہ بات قابل تسلیم ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی یاد گار کا م کیے۔اردو مترجمین کا تقرر، پرائمری اساتذہ کی خاصی تعداد میں آسامیاں نکالیں، قبر ستانوں کی چہار دیواری،مسلم تہواروں اور خاص دنوں پر سر کاری تعطیلات کا اعلان،اردو اکیڈمی اور فخرالدین علی میموریل کمیٹی کی کائونسل کی تشکیل،بعض مدرسوں کو منی آئی ٹی آئی بنایا،سرکاری مدارس کے اسا تذہ کو تنخواہیں،اعلیٰ اور بڑے عہدوں پر مسلمانوں کا تقرر کیا اور مسلم وزرا بھی رکھے۔اعظم خاں کو ہمیشہ ہر مشورے میں اہمیت دی۔ان میں سے بہت سے کاموں کوان کے بیٹے اور ایس پی سپریمو اکھلیش یادو نے بھی جاری رکھا۔لیکن آہستہ آہستہ ان میں کمی آتی گئی اور ایس پی کی سیاست مسلمانوں کے ووٹ تک سمٹ کر رہ گئی۔مسلمان لیڈران کو دبایا گیا۔بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اعظم خاں پر 80کیس لاد دیے گئے، لیکن ایس پی نے ملک گیر پیمانے پر کوئی زبردست احتجاج نہیں کیا۔

دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی حال ملتا جلتا ہے۔ٹی ایم سی،بی ایس پی،ٹی ڈی پی،این سی پی،ڈی ایم کے،اے ڈی ایم کے،جے ایم ایم وغیرہ۔جے ڈی یو،آر جے ڈی اور کشمیر کی پارٹیوں کی الگ بات ہے۔یہ پارٹیاں گاہے بگاہے مسلمانوں کے فائدے کے کا کام کرتی رہتی ہیں۔ یہاں مسلم ووٹ خاصی تعداد میں ہیں، اس لیے ان کی مجبوری ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم،مسلم لیگ اور یو ڈی ایف خالص مسلمانوں کی جماعتیں ہیں۔یو ڈی ایف اور مسلم لیگ کا گراف تو دن بہ دن ڈھلان کی طرف ہے جبکہ مجلس اتحاد المسلمین خوب ترقی کر رہی ہے۔بہت زمانے تک اسے ’’ بی جے پی کی منی ٹیم‘‘ کہا جاتا رہا ہے، لیکن اس نے مسلم مسائل کو بر وقت اٹھا کر اور بی جے پی کی مخالفت کرکے ثابت کر دیا کہ اس کا کوئی تعلق بی جے پی سے نہیں اور یہ حقیقت میں مسلمانوں کی ہمدرد ہے۔ملک کو محفوظ کرنے کے لیے مسلمانوں کو قربانیاں دینی ہوں گی اور پارٹی مفاد سے اوپر مذہبی مفاد رکھنا ہوگا۔یہ ملک سب کا ہے۔اس کے لیے سب کو خاص کر مسلمانوں کو آگے آنا ہوگا۔

aslamjamshedpuri@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS