ملک میں کورونا کا گراف نیچے آنے کے ساتھ ہی سیاسی پارہ اوپر جانے لگا ہے۔ موسم کی زبان میں کہیں تو جس طرح ملک میں مانسون تیزی سے اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے، اسی طرح سیاسی میل جول اور نئے گٹھ جوڑ کے امکانات بھی رفتار پکڑ رہے ہیں۔ اترپردیش سے لے کر مغربی بنگال تک اور پنجاب سے لے کر کرناٹک تک ہر ریاست اس سیاسی بارش سے شرابور ہورہی ہے۔ حالاں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بارش ٹھنڈک لانے کے بجائے سیاسی گرمی میں اضافہ کررہی ہے۔
بیشک اترپردیش سے اس عمل کی شروعات نہ ہوئی ہو، لیکن ملک کی سیاست میں صوبے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کسی بھی سیاسی بحث میں اسے نقطہ نظر(فوکل پوائنٹ) بنانے کا ایک طرح کا فطری حق ملا ہوا ہے۔ اترپردیش کے لیے کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی راہ اسی ریاست سے نکلتی ہے اور اتفاق سے یہاں کے مسائل سے متعلق میل ملاقاتوں کا ایک سرا وزیراعظم سے بھی جڑرہا ہے۔ گزشتہ پورے ہفتہ میں اترپردیش میں بی جے پی اور سنگھ سے وابستہ لیڈران کی خاصی سرگرمی نظر آئی۔ میڈیا میں اسے یوگی حکومت کا رپورٹ کارڈ تیار کرنے کے عمل کا نام دیا گیا جو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے ایک فطری عمل لگتا ہے۔ حیرت زدہ کردینے والا رہا اس عمل کا کلائمیکس، جب یوگی خود ’فائنل پرزنٹیشن‘ کے لیے وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا سے روبرو ہونے کے لیے دہلی پہنچ گئے۔ اترپردیش میں بڑی تبدیلی، ممبران اسمبلی کی ناراضگی اور دہلی-لکھنؤکے درمیان کھینچ تان کی قیاس آرائیوں کے دوران ہوئے اس میل ملاپ کے بعد اب یہ بات نکل کر آرہی ہے کہ مرکزی قیادت کا وزیراعلیٰ یوگی پر اعتماد مکمل طور پر قائم ہے اور اسمبلی الیکشن انہی کی سربراہی میں لڑا جائے گا۔ ریاست کے اقتدار پر پارٹی کی پکڑ مزید مضبوط کرنے کے لیے قومی قیادت کی جانب سے انہیں محروم طبقہ کی فلاح اور ان سے وابستہ مرکزی اور ریاست کی اسکیموں کو مزید وسعت دینے کی صلاح دی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ یوگی کے دہلی دورہ کے پیچھے دلچسپی کی ایک وجہ اور تھی حالیہ دنوں میں ان کی سخت مخالفت کرنے والا برہمن لیڈر اور راہل گاندھی کے قریبی جتن پرساد کا کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں آنا۔ جتن پرساد گزشتہ کچھ دنوں سے یوگی حکومت کی شبیہ کو برہمن مخالف بتانے کی مہم میں مصروف تھے۔ بی جے پی امید کررہی ہے کہ جتن پرساد کے آنے سے اسمبلی انتخابات میں برہمن ووٹ اس کے حق میں متحد ہوگا، لیکن ان کو ’ایڈجسٹ‘ کرنے میں صوبہ کی سیاست کو کئی جھٹکے لگنا بھی طے سمجھا جارہا ہے۔ ابھی تو صرف کانگریس اس کی شکار ہوئی ہے۔
ملک کی عام زندگی سے لے کر معیشت کو بھلے ہی پٹری پر لوٹنے میں وقت لگے، لیکن سیاست اب کورونا کے روکے بھی رکنے کو تیار نہیں ہے۔ ابھی میل ملاقاتوں کی ہلکی بوچھاریں شروع ہوئی ہیں، لیکن اشارہ صاف ہے۔ اگلے ایک سال میں اترپردیش، پنجاب سمیت پانچ ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں کے الیکشن ہیں۔ یعنی آنے والے وقت میں سیاسی بادل گرجیں گے بھی، چمکیں گے بھی اور سیاست میں آگے نکلنے کی جلدبازی کئی نئے اتحاد کا سبب بنے گی۔
راجستھان اور پنجاب میں اس جھٹکے کا ’ایکشن ری پلے‘ ٹالنے کے لیے دہلی میں کانگریس میں بھی میل ملاقاتوں کا دور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ راجستھان میں سچن پائلٹ 10ماہ سے ناراض چل رہے ہیں اور اب ان کے حامی اس بات سے اور زیادہ ناراض ہوگئے ہیں کہ پنجاب میں کیپٹن امریندر سنگھ کے خلاف محاذ کھولنے والے نوجوت سنگھ سدھو کی بات کو تین ماہ میں ہی سنا جارہا ہے تو ان کے لیڈر کو اتنا طویل انتظار کیوں کروایا جارہا ہے۔ اس تفریق کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ پنجاب کا بحران ٹالنے کے لیے تو ہائی کمان نے کیپٹن اور سدھو کو دعوت دے کر دہلی طلب کیا، جب کہ سچن پائلٹ کو بن بلائے مہمان کی طرح دہلی-جے پور کے درمیان ’اپ-ڈاؤن‘ کرنا پڑرہا ہے۔ حالاں کہ کانگریس راجستھان سے متعلق بھی سنجیدہ نظر آرہی ہے، لیکن پائلٹ سے اسے دو وجوہات کے سبب زیادہ خطرہ نہیں نظر آرہا ہے، پہلا یہ کہ وہ اپنے دوست جتن پرساد کی طرح کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں نہیں جانے والے اور دوسرا یہ کہ اس مرتبہ ان کے خیمے میں اتنے ممبران اسمبلی نظر نہیں آرہے ہیں جو راجستھان میں تختہ پلٹ کرسکیں۔
وہیں مدھیہ پردیش میں ٹھیک ایسا کرچکے جیوتی رادتیہ سندھیا بھی لاکھ کوشش کے باوجود اپنی بے چینی نہیں چھپا پارہے ہیں۔ سندھیا کو بی جے پی میں آئے سوا سال ہوچکا ہے، لیکن وہ ابھی بھی ’محض‘ راجیہ سبھا ممبر ہیں جو وہ کانگریس میں رہتے ہوئے بھی تھے۔ سیاست میں اپنا عہدہ بڑھانے کے لیے سندھیا بھی گوالیار-بھوپال وایا دہلی کے پھیرے لگارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ بھوپال کے دورہ پر انہوں نے اقتدار اور تنظیم سے لے کر سنگھ کی چوکھٹ تک ناپ دی۔ ان سے متعلق قیاس آرائیاں ہیں کہ شاید مرکزی کابینہ کی توسیع میں ان کی سنوائی ہوجائے۔ لیکن سندھیا سے ہٹ کر بھی مدھیہ پردیش بی جے پی میں نئے اتحاد کی چہ می گوئیاں ہیں۔ ریاست کے وزیرداخلہ نروتم مشرا، مغربی بنگال کے چارج سے حال ہی میں آزاد ہوئے کیلاش وجے ورگیہ، سابق وزیرداخلہ بھوپیندرسنگھ، سابق ریاستی صدر پربھات جھا، موجودہ صدر وی ڈی شرما، مرکزی وزیر پرہلاد پٹیل کے مابین بند کمروں میں ہوئی میٹنگوں کو اس سے منسلک کرکے دیکھا جارہا ہے۔ حالاں کہ میڈیا کے کیمروں پر ہم نے ان میں سے کچھ لیڈران کے بیان بھی سنے ہیں، جس میں وزیراعلیٰ شیوراج کے تئیں غیرمشتبہ وفاداری کا اظہار ہے۔
دوسری جانب مہاراشٹر میں ایک مرتبہ پھر بند دروازے میں ہوئی میٹنگ کے بعد سیاسی سرگرمی میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ریاست کے وزیراعلیٰ اودھوٹھاکرے کی ملاقات کے بعد شیوسینا کے سر بدل گئے ہیں۔ مہاراشٹر میں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ 2019میں امت شاہ اور اودھوٹھاکرے کے مابین ہوئی میٹنگ کے 7ماہ بعد ریاست کی سیاست ہی بدل گئی تھی۔ اس کے بعد این سی پی-بی جے پی کی میٹنگ کے بعد بھی ہلچل ہوئی تھی اور اب اودھو اور وزیراعظم مودی کی میٹنگ کے بعد بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ میٹنگ کے بعد جس طرح شردپوار نے بالاصاحب کی مثال دے کر شیوسینا کو مشکل وقت میں وعدہ نے بھولنے کی نصیحت دی ہے، اس سے مہااگھاڑی میں ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی کا بھی پتاچلتا ہے۔ بالخصوص دو ماہ پہلے شردپوار اور امت شاہ کی احمدآباد میں ہوئی مبینہ ملاقات کے بعد اب اس طرح وزیراعظم کے ساتھ اودھو کی اکیلے میں چرچا سے لگتا ہے کہ وہ چیک اینڈ بیلنس کا گیم کھیل رہے ہیں۔ جمعہ کو انتخابی حکمت عملی بنانے والے پرشانت کشور سے شردپوار کی ملاقات کہیں اودھو سے چیک میک کے اندیشہ کی پیشین گوئی تو نہیں ہے؟
میل ملاقاتوں والی اس سیاست میں ملک کی دو سیاسی طور پرسب سے خواندہ ریاستیں بنگال اور بہار بھی پیچھے نہیں ہیں۔ بنگال میں حال ہی میں الیکشن ہوئے ہیں اور ممتابنرجی کی بمپر جیت کے بعد کمل کے پھل سے ترنمول میں واپسی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ مکل رائے کو شوبھیندوادھیکاری کو مل رہی توجہ کے بعد بی جے پی پرایا گھر لگنے لگی، لہٰذا وہ ’گھر کے لڑکے‘ والی ’ممتا‘ کی کشش میں دوبارہ ترنمول میں لوٹ گئے۔ وزیراعظم کا فون بھی انہیں بی جے پی میں روک نہیں پایا۔ وہیں بہار میں بھی وزیراعلیٰ نتیش کے دوست اور ’ہم‘ کے سربراہ جیتن رام مانجھی آج کل لالو کنبہ سے نزدیکی بڑھاتے نظر آرہے ہیں۔ پہلے لالو پرساد یادو کو شادی کی سالگرہ کی مبارکباد دی اور پھر جب برتھ ڈے پر لالو سے ملنے دہلی نہیں جاسکے تو بیٹے تیج پرتاپ کے ساتھ پٹنہ میں ہی بند کمرے میں ملاقات کرلی۔ گزشتہ دنوں ماجھی ایسی ہی ایک ملاقات وی آئی پی صدر مکیش ساہنی سے بھی کرچکے ہیں۔ حالاں کہ ان ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئیں، یہ ملنے والوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، لیکن آر جے ڈی کو اس میں این ڈی اے میں نااتفاقی نظر آرہی ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ ملک کی عام زندگی سے لے کر معیشت کو بھلے ہی پٹری پر لوٹنے میں وقت لگے، لیکن سیاست اب کورونا کے روکے بھی رکنے کو تیار نہیں ہے۔ ابھی میل ملاقاتوں کی ہلکی بوچھاریں شروع ہوئی ہیں، لیکن اشارہ صاف ہے۔ اگلے ایک سال میں اترپردیش، پنجاب سمیت پانچ ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں کے الیکشن ہیں۔ یعنی آنے والے وقت میں سیاسی بادل گرجیں گے بھی، چمکیں گے بھی اور سیاست میں آگے نکلنے کی جلدبازی کئی نئے اتحاد کا سبب بنے گی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)