ایس ایم عارف حسین
’جمہوریت‘ کے معنی عوامی اکثریتی رائے کے ہیں۔یہاں یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ کس بھی ملک کی اکثریتی رائے یا فیصلہ کی بنیاد پر وہاں’جمہوری حکومت‘ قائم کی جاتی ہے جو بادشاہی نظام سے بالکلیہ مختلف ہوتی ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ رامناتھ کووند جی نے حال ہی میں اپنی ’وداعی تقریب‘سے مخاطبت کے دوران ہندوستان کے آئین کے معمار بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے ان الفاظ کو دوہرایاجس کو انہوں نے ملک کے آئین کے نافذ ہونے سے قبل کہا تھا کہ’کسی بھی جمہوریت میںسیاسی و سماجی جمہوریت‘کی بقا لازمی ہے۔ چونکہ یہ دو اجزا جمہوریت کے ایک جسم و جان کے مترادف ہوتے ہیں۔
سابق صدر جمہوریہ نے مذکورہ بالا فکر پر زور دیتے ہوے کہا کہ جمہوری نظام میں سیاسی جمہوریت کے ساتھ ساتھ سماجی جمہوریت کی بقا بھی بے حد لازمی ہے۔موصوف کی اس فکر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کی موجودہ سیاسی جمہوریت کہیں نہ کہیں سماجی جمہوریت کے تحفظ میں کمزور ہے۔
جہاں تک’سیاسی جمہوریت‘کا تعلق ہے اس میں ’اقلیتوں‘کی نمائندگی بہت کمزور پائی جاتی ہے جبکہ انتخابات میں اقلیتوں اورپسماندہ طبقوں کو تحفظات فراہم کرنا طے شدہ امر ہے لیکن ہمارے ملک کی بہت کم سیاسی پارٹیاں اس پر عمل کرتی ہیں اور اگر عمل کرتی بھی ہیں تو اس کا فیصد بہت ہی کم ہے۔نتیجہ میں مذہب کی بنیاد پر اکثریت رکھنے والوں کے نمائندے ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
’سیاسی جمہوریت‘میں یہ امر بھی اکثر مشاہدہ میں آرہا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کے منتخب نمائندے اقتدار کی ہوس میں یا اپنی پارٹی کے لیڈر سے ناراضگی کی وجہ سے انحراف کرتے ہوے دوسری سیاسی پارٹی کی تائید کررہے ہیں اور ریاستی حکومتوں کو گرارہے ہیں جس سے ووٹرس کے حق اور جمہوری نظام کی توہین ہورہی ہے۔لہٰذا ’منحرف منتخب نمائندوں‘پر قانونی پابندی نافذ کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ انتخابی عمل کی عزت باقی رہے۔
جہاں تک سیاسی جمہوریت کا تعلق ہے قانون کے دائرہ میں رہ کر حکومت کی کارکردگی کے خلاف آواز اٹھانے والے عام آدمی اور خاص کر صحافیوں کو ملک سے غدداری کا الزام لگاکر پولیس کی حراست میں لیا جارہا ہے تاکہ حکومت کی کارکردگی کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھاسکے جو کہ’تانا شاہی‘کی علامت ہے اور جمہوریت کے خلاف ہے۔
جہاں تک’سماجی جمہوریت‘کا تعلق ہے وہ آپسی بھائی چارہ،حصول معاش و تجارت کی آزادی اور کسی بھی مذہب کو اپنانے کا اختیار دیتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ امور پر آزادانہ عمل آوری اور ان کا تحفظ لازمی ہوتا ہے تب کہیں جاکر ملک کی سیاسی جمہوریت صحیح طور پر کارگر ہوگی اور مجموعی طور پر جمہوری نظام کامیاب ہوگا۔
یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ فی الحال ہمارے ملک کی’سماجی جمہوریت‘واقعی کمزور ہوتی جارہی ہے چونکہ ملک کے باشندوں میں آپسی محبت و بھائی چارہ تعصب اور نفرت کا شکار ہوچکا ہے۔
سماج کا معاشرتی پہلو تعصب کا شکار ہوتا جارہا ہے اور حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ملک کے باشندے تجارت کرنے،ملازمت دینے اور یہاں تک کہ خالی مکانات کو کرایہ پر دینے میں بھی ایک دوسرے سے مذہبی بنیاد پر نفرت کا شکار ہوتے پاے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک جانب ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اوربے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب محلے اور بستیاں ایک خاص مذہبی سوچ رکھنے والوں کی رہائش گاہ بنتی جارہی ہیں نتیجتاً ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے میں ذہنی خوف مشاہدہ میں آرہا ہے۔
’سماجی جمہوریت‘کا سب سے اہم پہلو مذہبی آزادی کا ہے۔ہمارے آزاد و جمہوری ملک کا آئین یہاں کے باشندوں کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے،اس پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کی اجازت دیتا ہے کیونکہ ہمارے ملک کی آزادی کے حصول میں یہاں موجود سب ہی مذاہب کے ماننے والوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔مگر افسوس کہ ہمارے ملک ہندوستان میں سیاسی جمہوریت کی آڑ میں ’ سماجی جمہوریت‘کے اہم پہلو مذہب سے نفرت پیدا کرتے ہوے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ بات بھی عیاں ہے کہ مذہبی نفرت کی بنیاد پر ملک کی ’تعدادی اکثریت‘اقلیتوں پر ظلم ڈھاتے ہوے کبھی جانوروں کی منتقلی پر’ماب لنچنگ‘کررہی ہے،کبھی مذہبی نعروں کو دہرانے کے لئے جان لیوا حملے کئے جارہے ہیں،کبھی مذہبی تعلیمی اداروں کو مذہبی تعلیم عام کرنے سے روکا جارہا ہے اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی مالی امداد کو روک دیا جارہا ہے۔کبھی مذہب کی اشاعت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے تو کبھی ملک سے غداری کا الزام لگایا جارہا ہے،کبھی مذہبی لباس پہننے اور ظاہری وضع پر اعتراض کیا جارہا ہے تو کبھی عبادت گاہوں کے آس پاس مذہبی نعرہ بازی اور شور و غل برپا کرتے ہوے عبادت میں خلل پیدا کیا جارہا ہے،کبھی ایک ’مخصوص زبان‘کو کسی ایک مذہب کے ماننے والوں سے منسلک کرتے ہوئے اس کو اس مذہب کی زبان قرار دیتے ہوے زبانوں کے درمیان تعصب پھیلایا جارہا ہے۔نتیجہ میں مذکورہ غیر قانونی اور نفرت پھیلانے والی حرکات کی وجہ سے ’سماجی جمہوریت،بری طرح متاثر ہورہی ہے اور ملک کی بنیادی’ جمہوریت‘ منفی طور پر متاثر ہورہی ہے۔اس طرح ایک طرف ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے تو دوسری طرف ملک کے باشندے ذہنی سکون سے محروم ہورہے ہیں۔
لہٰذا آئین کے معمار بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی فکر اور سابق صدر جمہوریہ رامناتھ کووند جی کی اس جانب توجہ دہانی کی تعمیم و تشہیر وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔لہٰذا ملک کے’موجودہ عوامی منتخب نمائندے‘جو حکومت سنبھال رہے ہیں پر ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کی ’مجموعی جمہوریت‘کا آئین کے مطابق تحفظ کریں تب ہی کہیں’سیاسی و سماجی جمہوریت‘ کا تحفظ ہوگا۔
اندھیرے یوں ہی نہیں جاتے صرف سوچ لینے سے
چراغ خود نہیں جلتا جلانا پڑتا ہے
جمہوریت میںسیاسی و سماجی تحفظ لازمی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS