سیاست میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ برعکس حالات میں موقع کا استعمال کس نے کس طرح کیا۔ جو پارٹی برعکس حالات میں بھی موقع کی تلاش کر لیتی ہے، حصولیابیوں کے لیے جدوجہد بھی آسان بنا لیتی ہے۔ بات اگر حالیہ تحریک عدم اعتماد کی کی جائے تو اس طرح کی تحریک اس سے قبل 2018 میں لائی گئی تھی اور اپوزیشن جماعتوں کو کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس بار بھی لوک سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس اتنی سیٹیں نہیں تھیں کہ ان کی جیت کی امید کی جا سکتی تھی۔ اس کے باوجود ان کا تحریک عدم اعتماد لانا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ دراصل منی پورتشد کی آگ میں چند مہینوں سے جھلس رہا تھا۔ اپوزیشن لیڈران تحریک عدم اعتماد کی بحث میں حصہ لینے سے قبل منی پور ہوکر آئے تھے، اس لیے ایسا لگتا تھا کہ وہ پرزور طریقے سے منی پور کے لوگوں کی بات رکھیں گے، ریاستی حکومت کے ساتھ مرکزی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ اپوزیشن لیڈروں نے پرزور انداز میں بات رکھی اور منی پور کے تشدد کا ذکر کیا مگر ایسا لگتا نہیں کہ حکومت کے خلاف وہ کوئی ماحول بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جن ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں وہاں حالیہ مہینوں میں ہونے والے فساد پر جلد قابو پانے میں کامیابی نہیں ملی تھی جبکہ جیوتی بسو اور لالو پرساد یاد دو ایسے لیڈران ہیں جنہوں نے فسادات پر بڑی حد تک قابو پالیا تھا۔ تحریک عدم اعتمادکی بحث کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح اپنی حکومت کی حصولیابیاں گنوائیں اور اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص کانگریس کو جم نشانہ بنایا، اس سے یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم نے برعکس حالات کا رخ اپنی طرف موڑ لیا۔ اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔ کوئی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہے گا۔
اگر سوال یہ کیا جائے کہ کیا تحریک عدم اعتماد سے اپوزیشن اتحاد کو کچھ نہیں ملا؟ تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد سے اپوزیشن اتحاد کو یہ سمجھنے میں ضرور آسانی ہوئی ہوگی کہ وہ پارٹیاں جو بظاہر اس کے ساتھ نظر نہیں آتی تھیں اور حکمراں اتحاد کے ساتھ بھی نظر نہیںآتی تھیں، دراصل وہ ہیں کس کے ساتھ۔ اس سے انہیں حکمت عملی بنانے میں آسانی ہوگی۔ راہل گاندھی کو چھوڑ دیا جائے تو کتنے اپوزیشن لیڈران ہیں جو براہ راست عوام سے رابطہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے ۔ بہار میں ذات پر مبنی جو سروے ہو رہا ہے،تحریک عدم اعتماد کے بعد ممکن ہے، اس کا نتیجہ آنے کے بعد کچھ پیش رفت ہو لیکن پیش رفت میں اگر تاخیر ہوتی ہے تو یہ تاخیر شبہات پیدا کرے گی، کیونکہ نتیش کمار کے لیے این ڈی اے کوئی ایسا اتحاد نہیں جس سے وابستگی سے انہوں نے اسی طرح گریز کیا ہو جیسے لالو پرساد یادو نے کیا ہے۔ اسی سال کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ نومبر میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزورم اور دسمبر میں راجستھان، تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ان اسمبلی انتخابات سے یہ اندازہ لگانا کسی حد تک آسان ہو جائے گا کہ لوگوں کے رجحانات کیا ہیں، چنانچہ ایک طرف کانگریس ان انتخابات میں کرناٹک جیسی کامیابی حاصل کرنا چاہے گی تو دوسری طرف بی جے پی کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ نتائج سے چونکائے۔ ایک بات طے سی ہے کہ 2024 کے عام انتخابات آسان نہیں ہوں گے۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد راہل گاندھی کی مقبولیت میں ضرور اضافہ ہوا ہے مگر وزیراعظم نریندرمودی کوچاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ اور ان کے لیڈران جس طرح ہر انتخاب جیتنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، وہ خود اپنی مثال آپ ہے مگر انتخابی تشہیر میں ممتا بنرجی اورکجریوال بھی ماہر ہیں۔اپوزیشن اتحاد اگر نتیش اور کھڑگے کے تجربوں کا بہتر استعمال کرنے میں کامیاب رہا تو 2024کے انتخابات کانٹے کے ہوں گے۔ n
تحریک عدم اعتماد کے بعد سیاسی سرگرمیوں کے تیز ہونے کا امکان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS