پولیس اور جیل کے عملے کا قیدیوں کے ساتھ نارواسلوک قانوناًجرم: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

پولیس کے لیے وزارت داخلہ کے ذریعے مرتب کردہ ضابطۂ اخلاق میں یہ باتیں شامل ہیں :

آئین اور عوام کے حقوق کا احترام، کسی قانون کے جواز پر سوال نہ اٹھانا اور قانون کو بغیر کسی جانبداری،بد نیتی اور جذبۂ انتقام کے لاگو کرنا، اپنے اختیارات اور فرائض منصبی کی حدود میں رہ کر کارروائی کرنا اور کسی بے قصور سے بدلہ لینے کے لیے کسی طرح کی سزا دے کر منصف کا رول ادا نہ کرنا، نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے،جہاں تک ممکن ہو،ترغیبی و نصیحت آمیز رویہ اختیار کرنا، وارننگ(تنبیہ) دینا اور بحالت مجبوری حالات کے مد نظر کم سے کم طاقت کا استعمال کرنا، ان کا بنیادی کام جرائم اور بد نظمی کو روکنا ہے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ان کی نا اہلی کا ثبوت ہوگا، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بھی عوام میںسے ہی ہیں، صرف فرق یہ ہے کہ انہیں سماج کے مفاد میں ہمہ وقت ایسے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری دی گئی ہے جن کی ادائیگی خود عوام کو بھی کرنی چاہیے، ان کی کارکردگی کے معیار کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ انہیں عوام کا تعاون کس حد تک ملتا ہے اورعوام ان پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں، مزید یہ کہ ان کے ساتھ پولیس کا رویہ کس حد تک ہمدردانہ اور دوست جیسا ہے اور عوام بھی کس حد تک ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں اور بوقت ضرورت ان کی کتنی مدد کرتی ہے۔انہیں اپنی ذات کے مقابلے میں اپنے فرائض کی انجام دہی کو ترجیح دینی چاہیے اور کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔انہیں سب کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آناچاہیے اور بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔انہیں اپنے وقار کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی بہادری کی بھی مثال پیش کرنی چاہیے اور عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ان کی نام وری اور ان کے وقارکی بنیادان کی دیانت داری پر ہی ہے۔ ان کی ذاتی و دفتری زندگی ایماندارانہ اورصاف ستھری ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ان کی سوچ بھی مثبت ہونی چاہیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عوام کی نظر میں ان کا درجہ مثالی شہری کا ہونا چاہیے۔وہ نظم و ضبط قائم کرنے والے ایسے افسر ہونے چاہئیں جو اپنے فرائض منصبی قانون کے مطابق وفاداری کے ساتھ انجام دیں، اپنی فورس کے تئیں وفادار رہیںاور اپنے افسران کی جائز ہدایات پر پوری طرح عمل کریں اور ہمہ وقت کوئی بھی کارروائی کرنے کے لیے اور کسی بھی طرح کی تربیت حاصل کرنے کے لیے مستعدی سے تیار رہیں اورخود کو ہر طرح کی جدید معلومات سے آراستہ رکھیں۔ انہیں ایک سیکولر اور جمہوری ملک کا باشندہ ہونے کے ناطے سب کے ساتھ برادرانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے اور مذہب، زبان اور علاقے کی بنیاد پر کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں برتناچاہیے اور کمزور طبقات و خواتین کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کے وقار پر آنچ آئے۔

اذیت رسانی اور دیگر ظالمانہ غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک کے خلاف کنونشن(1984) کی دفعہ 1 کے مطابق اگر کوئی سرکاری افسر یا اس کی ایما پر کوئی دیگر شخص کسی شخص کو اقبال جرم کرنے یا کرانے یا جانکاری حاصل کرنے یا کرانے کے لیے شدید جسمانی یا دماغی تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ بہ پابندی دیگر شرائط دفعہ ہٰذا ’اذیت رسانی‘ کے جرم کا مرتکب ہوگا یا اسے مشتبہ شخص سمجھا جائے گا یا اس کی بابت یہ سمجھا جائے گا کہ اسی نے متاثرہ شخص کو ڈر خوف میں رکھا اور اس پر دباؤ ڈالا ہے۔

جرائم دوران تحویل :کسی بھی مہذب ملک کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ تحویل کے دوران کسی بھی شخص پر کوئی ظلم کیا جائے۔انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے 1948 کی تمہید میں بھی انسانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ سے گریز کرنے اور انسانی اقدار کا احترام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ دفعہ11کے مطابق ہر ملزم اس وقت تک بے گناہ سمجھا جائے جب تک وہ کھلی عدالت میں قانون کے مطابق قصوروار ثابت نہ ہوجائے۔

سپریم کورٹ بھی وقتاً فوقتاً اس معاملے میں تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔
پریم شکلا والے معاملے((1980) 3 ایس سی سی 526)میں ملزم کو ہتھکڑی لگانے کی مذمت کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ19 کے تحت عطا کی گئی آزادی کو ہتھکڑی لگا کر کم نہیں کیا جاسکتا۔
سمن بیہڑا والے(نیلا بتی بنام ریاست اوڈیشہ معاملے (1994) ایس سی سی 569) میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ تحویل کے دوران کسی شخص کی موت، کسی مہذب سماج میں، جہاں پر قانون کے اقتدار کا اطلاق ہوتا ہے، غالباً سب سے بدترین جرم ہے۔ اس کے علاوہ کرتار سنگھ بنام ریاست پنجاب والے معاملے (اے آئی آر 1993 ایس سی 1960) میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پوچھ گچھ کے دوران کسی شخص کو نہ کوئی اذیت دی جاسکتی ہے اور نہ کوئی سخت تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ تیسرے درجے کا یعنی ناروا برتاؤ کیا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے ڈی کے باسو بنام ریاست مغربی بنگال والے معاملے 41 (1997) ایس سی سی 416 ) میں ملزم کی تحویل کے دوران عدالت کی در ج ذیل ہدایتوں میں سے کسی بھی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ سرکاری افسر کو توہین عدالت کے لیے سزا دی جاسکتی ہے۔ کچھ اہم ہدایات اس طرح تھیں :

ان پولیس والوں کا ریکارڈ رکھا جائے جنہوں نے کسی شخص کو گرفتار کیا ہو۔گرفتاری کا ریکارڈ رکھا جائے۔حراست یا نظربندی کے دوران، حراست میں رکھا گیا یا نظربند کیا گیا شخص کہاں پر ہے، اس بات کا ریکارڈ رکھا جائے اور اس کے خیرخواہوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کو اس کی گرفتاری کی اطلاع دی جائے۔ گرفتار کیے گئے یا حراست میں رکھے گئے شخص کا وقتاً فوقتاً طبی معائنہ کرایا جائے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جاسکے کہ تحویل کے دوران اس کے ساتھ کسی جبر یا طاقت کا استعمال تو نہیں کیا جارہا ہے اور یہ کہ اس کی صحت کیسی ہے۔معائنہ میمو تیار کیا جائے، اس میں مضرت، چوٹ یا زخم کا ریکارڈ رکھا جائے تاکہ تحویل کے دوران کیے گئے کسی بھی تشدد کا بآسانی پتہ لگایا جاسکے۔

جن سرکاری ایجنسیوں کو ان ہدایات پر سختی سے عمل کرنا ہوگا، ان کوسٹل گارڈ، سی آرپی سی، آئی ایس ایف، سی بی آئی،ریاستی مسلح پولیس، سی آئی ڈی، ٹریفک پولیس جیسے ادارے آتے ہیں۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق بھی ایسے بہت سے افراد کو جن کی تحویل کے دوران کی جانے والی زیادتیوں کے سبب موت واقع ہوگئی یا وہ جسمانی طور پر معذور ہوگئے یا جن کے وقار کو ٹھیس پہنچی، حسب صورت، انہیں یا ان کے وارثین کو معاوضہ دینے کے احکام صادر کرتا رہا ہے۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS