ممبر پارلیمنٹ کے زہریلے بول : جمیل اختر شفیق

0

جمیل اختر شفیق
ہندوستان کی پاک اور صاف ستھری زمین کو گرچہ،ذات پات، مذہب اور رنگ ونسل کی گندی سیاست نے ناپاک کردیا ہے،لیکن بنیادی طور پر یہ ایک جمہوری ملک ہے،امن اور ایکتا اس کے خمیر میں شامل ہے جس کی درجنوں مثالیں تاریخ کے صفحات پہ محفوظ ہیں،اسی لیے میدانِ سیاست میں طبع آزما کرنے والا ملک کے جس خطے سے جو بھی نمائندہ جیت کر کسی بھی پارٹی میں اپنی موجودگی درج کراتا ہے تو اس کا یہ آئینی فرض ہے کہ وہ اپنے حلقے کے ایک ایک فرد کی فکر کرے،اس کے دکھ درد میں شریک رہے اور اپنے علاقے کو ترقی کے شیکھر پر پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے لیکن جنتا کے ووٹوں سے جیتنے والا اگر کوئی نمائندہ جیت حاصل کرنے کے بعد اپنے پیش نظر یہ بات رکھتا ہے کہ جس نے اس کو ووٹ کیا ہے وہ اسی پہ مہربان رہے گا اور بقیہ لوگوں کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاکر اسے روحانی خوشی ملے گی اور وہ انتقاماً اس کے لیے سرگرم ہوجائے،عل الاعلان اس کا اظہار بھی کرنے لگے تو یہ قانونی اعتبار سے جرم اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی شرمناک عمل سمجھا جائے گا۔
پچھلے دنوں بہار کے سیتامڑھی ضلع سے جدیو کے ٹکٹ پہ ایم پی کے الیکشن میں جیت حاصل کرنے والے سابق ایم ایل سی دیوش چندر ٹھاکر کو ہندوؤں میں یادو ذاتی کے لوگ، کشواہا اور مسلمانوں سے گہری شکایت ہے ان کا کہنا ہے کہ ’’میں ماضی میں ان تینوں طبقوں کے ہر دکھ درد میں شریک رہا لیکن جب ووٹنگ کی باری آئی تو ان لوگوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا‘‘ اسی لیے ایک عوامی محفل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ لوگ اگر میرے پاس آئیں گے تو میں ناشتہ پانی کھلادوں گا لیکن اگر بات آئے گی ان کی ذاتی ضروریات یا ان کی فریاد سننے کی تو واضح رہے کہ میں ان کی کوئی مدد نہیں کرپاؤں گا،مجھے اب ان سے کسی طرح کی کوئی ہمدردی نہیں ہے،آئندہ الیکشن میں اگر وہ اپنا ووٹ مجھے دیں گے تب میں ان کے کوئی کام آؤں گا‘‘۔جبکہ چند سیاسی فیصلوں کو نظر انداز کردیں تو اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ ان کی پارٹی کے مکھیا اور بہار کے وزیر اعلیٰ نیتش کمار کبھی اس طرح کی نیچ سوچ کے مالک نہیں رہے۔انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ انہیں کسی سماج کے لوگوں نے سپورٹ کیا اور کس نے نہیں بلکہ اس سے اوپر اٹھ کر انہوں نے ہمیشہ اپنی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سماج کے ہر طبقے کے لیے فلاح کا کام کیا ،روزگار کے مواقع فراہم کیے باالخصوص مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کا سامان نہیں سمجھا بلکہ ان کے لیے بھی سماج میں سر اْٹھاکر جینے کی راہیں ہموار کیں،رہی بات دیویش چندر ٹھاکر کی تو ان کے بیان سے یوں لگتا ہے کہ
اس کی اَنا کو سکۂ تحسین چاہیے
خیرات دینے والا بھی کاسہ بدست ہے
انہوں نے یہ بیان پہلی نظر میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی باتوں میں جان ہے،وہ اپنی دلیلوں میں حق بجانب ہیں جس کی تائید خود ان کی پارٹی کے کچھ کوتاہ نظر لوگ بھی کر رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ انہوںنے ساری باتیں کئی اعتبار سے غیر اصولی،غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہیں،بقول ان کے ’’سیاست سے میری دال روٹی نہیں چلتی ہے،میں سیاست میں سماج سیوا کے لیے آیا ہوں‘‘ لیکن حیرت یہ ہے کہ ایک ہی جھٹکے میں انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ انہوں نے اب تک جو سماج سیوا اور انسانیت نوازی کا مکھوٹا اپنے چہرے پہ لگا رکھا تھا وہ سب جھوٹا ہے،ایک فریب ہے،کیونکہ ایک بہتر انسان، انسانیت کی خدمت کرنے والا شخص کبھی بھی اپنا مفاد وابستہ رکھ کر سماج سیوا نہیں کرتا اس کا مقصد اپنے رب کو راضی کرنا ہوتا ہے ویسے وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ’’وہ ہر دھرم کا سمّان کرتے ہیں‘‘ تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا ہر دھرم کی مذہبی کتابیں یا ان کے دھرم گرو اسی نظریے کی تعلیم دیتے ہیں جس کا وہ آج کل سینہ ٹھونک کر اظہار کررہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS