بدعنوانی کو شکست دینا چاہتے ہیں پی ایم مودی : ڈاکٹر سیّد احمد قادری

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

ملک کے وزیر اعظم مسلسل کرپشن کے خلاف صف آرا ٔہیں۔ اپنے ملک سے کرپشن کو صرف روکنے ہی نہیں بلکہ ختم کرنے میں کوئی بھی دقیقہ نہیں چھوڑ ا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھئے کہ کرپشن کے الزام میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین جیل میں ہیں ، بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو یادو کرپشن کے الزام میں سزا کاٹ کر کچھ ہی دن پہلے جیل سے بری ہوئے ہیں، دہلی حکومت کے نائب وزیر اعلیٰ رہے منیش سسودیا جیل میں ہیں ، ’آپ‘ کے ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ کے کرپشن بھی سامنے آئے اور فوراََ الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال بھی بس جیل کے دروازے پر کھڑے ہیں، بہار کی سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی،ان کے بیٹے اور سابق نائب وزیر اعلیٰ بہار تیجسوی یادو بھی کرپشن کے معاملے میں ای ڈی کے دفتر کے چکر کاٹ رہے ہیں، بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ابھیشیک بنرجی بھی ای ڈی کے چنگل میں ہیں ، کشمیر کے گورنر رہ چکے ستیہ پال ملک کے کرایہ کے فلیٹ سمیت 30 ٹھکانوں پر کرپشن سے حاصل کئے گئے روپے کی تلاش میں ای ڈی سرگرداں ہے ۔ یہ مختصر سی فہرست تو صرف مختلف ریاستوں کے وزراء اعلیٰ اور ایک سابق گورنر کی ہے ، وزراء اور ممبر ان پارلیمنٹ و اسمبلیوں کاذکر کرنے بیٹھوں تو پورا یہ صفحہ بھر جائے گا ۔ ان چند مثالوں سے میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کرپشن کے معاملے میں کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے کو رضامند نہیں ہیں اور ہر حال میں ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے والوں کو اپنی سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ کیفر کردار تک پہنچانے پر کمر بستہ ہیں ۔ برسر اقتدار آنے سے قبل ان کی مختلف تقاریر میں ہمیشہ یہ نعرہ ضرور رہتا تھا کہ ’’ نہ کھاؤںگا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ اسی نعرہ پر وہ اب بھی قائم ہیں ۔ اب میں پرانی باتوں کو دہرانے کے بجائے حالیہ چند برسوں میں پی ایم مودی کی کرپشن مخالف بیانات پر آتا ہوں ۔ گزشتہ 27 اکتوبر 2020 کو ’’ویجیلنس اور انسداد بدعنوانی ‘‘ کے موضوع پر منعقد قومی کانفرنس میں اپنی افتتاحی تقریر میں بھی مودی نے کرپشن کے خلاف اپنے عزم کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ آج ہندوستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے، جہاں بدعنوانی کی روک تھام کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ شکایت ہے کہ بدعنوانیوں کی خبر تو میڈیا کے ذریعہ پہنچتی ہے لیکن جب بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی وقت پر ہوتی ہے تو ہمیں ایسی مثالوں کو بھی پیش کرنا چاہئے۔ اس سے سماج کے نظام میں اعتماد بڑھتا ہے اور بدعنوان لوگوں میں ایک پیغام بھی جاتا ہے کہ بچنا مشکل ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ پی ایم مودی اور ان کی حکومت ،بدعنوانیوں سے اتنا ہی دور ہے جتنی ایک عادی شرابی مے خانہ سے ۔ اس امر کا خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی بار اعتراف کیا ہے ۔لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی گئی ۔ ایک طرف پی ایم مودی بہت واضح طور پر ملک سے بدعنوانیوں اور بدعنوانوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب آج کی تاریخ میں ہمارا ملک کرپشن کے معاملے میں 180 ممالک کے مقابلے 93 ویں مقام پر 2023 میںپہنچ گیا ، جبکہ2022 میں یہ 85 ویں پائیدان پر تھا یعنی بدعنوانی کے معاملے میں ہمارے وزیر اعظم کی لاکھ کوششوں سے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر چل نکلا ۔ یوں تو بیرون ممالک میں بدعنوانی کے معاملے میں شرمسار کرنے والی ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں جن کا ذکر کرنا میں وقت کی بربادی سمجھتا ہوں بس ایک مثال پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں ۔ وہ مثال ہے بی بی سی ، لندن کی جو اس نے 2017 میں اس چینل کی ڈپٹی لیڈر Chati Narula نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں بی جے پی وہ سیاسی پارٹی ہے جو دنیا کی سب سے کرپٹ پارٹی ہے ۔ ایسے میں لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر ہمارے وزیر اعظم بدعنوانیوں کے اتنے خلاف ہیں تو پھر عالمی سطح پر ایسی شرمندہ کرنے والی باتیں کیوں سامنے آتی ہیں اور ان خبروں کی سرکاری سطح پر تردید بھی نہیں کی جاتی ہے ۔ اب کیاکہا جائے کہ ایسی اور نہ جانے کتنی خبروں سے ہمارے ملک اور مودی حکومت کو پشیمانی اٹھانی پڑتی ہے ۔ اب یہی دیکھئے کہ مہاراشٹر میں جس اجیت پوار کے آبپاشی معاملے میں ملوث کرپشن کو اجاگر کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب اجیت پوار جیل میں ’ چکّی پیسنگ۔۔۔۔چکّی پیسنگ ۔۔‘ جیسے جملے ادا کئے تھے ، ان کے اس جملے کا یہ اثر ہوا کہ اجیت پوار اپنے تمام کرپشن کو دھونے کے لئے کمل چھاپ واشنگ مشین میں غوطہ لگا نے پر مجبور ہوئے اور جب وہ اپنے کرپشن سے پاک ہو گئے تو پھر انھیں بی جے پی نے گلے لگاتے ہوئے ان کی پشیمانی کے صلہ میں انھیں مہاراشڑ حکومت کا نائب وزیر اعلیٰ ہی بنا دیا ۔ اسی طرح مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوہان، کانگریس میں رہتے ہوئے آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی گھوٹالہ کے مرتکب ہوئے تھے اور حال میں کیس درج ہوا تو انھیں اپنے گھوٹالہ پر شرمندگی ہوئی اور وہ بھی بی جے پی کے واشنگ مشین میں اپنے پاپ کو دھونے کے لئے چھلانگ لگانے پر مجبور ہوئے اور یہاں سے جب وہ پاک صاف ہو کر نکلے تو صلہ میںراجیہ سبھا کی ممبر شپ عنایت کی گئی ، مہاراشٹر کے ہی چھگن بھجبل کو ہی لے لیجئے ، یہ بھی مہاراشٹر سدن گھوٹالہ میں دو سال کی سزا بھی بھگت چکے ہیں، لیکن اسی درمیان انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ بھی کمل برانڈ واشنگ مشین میں اپنے گناہ دھونے کے لئے داخل ہوئے اور جب گناہ دھل گیا تو انھیں بھی صلہ میں وزارت سونپ دی گئی ۔ شرد پوار کے بہت قریب رہے پرفل پٹیل سول ایویشن منسٹر رہتے ہوئے جتنے کرپشن کئے تھے اور 272 کروڑ روپے تلوار کو دئے تھے ایسے کئی معاملے میں قریب تھا کہ وہ کال کوٹھری میں جاتے، لیکن انھیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے بھی کرپشن سے پاک پارٹی میں شرن لی انھیں بھی وزیر کی کرسی صلہ میں دی گئی، نرائن رانے کے بھی گھوٹالے میں کافی شہرت پائی اور انھیں بھی واشنگ مشین میں دھو دھلا کر پاک صاف کیا گیا اور پھر مرکز کی وزارت سونپ دی گئی۔ میرا خیال ہے کہ مہاراشٹر سے اتنی مثالوں سے کام چل جائے گا، مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب ہم مہاراشٹر کے بعد بنگال کا رخ کرتے ہیں ۔ بنگال کے شوبھندو ادھیکاری نے جب ٹی ایم سی میں رہتے ہوئے شاردا گھوٹالہ اور ناردا اسٹنگ آپریشن کا جرم کیا تو وہ زیادہ تاخیر کئے بی جے پی کی پناہ میں آ گئے اور اپنی غلطیوں پر شرمسار بھی ہوئے نتیجہ میں ان پر ای ڈی نے مہربان ہوتے ہوئے جہاں کئی معاملوں میں کلین چٹ دے دی وہیں دوسرے کچھ معاملے میں کیس پنڈنگ میں رکھا ۔انھیں بھی ہر معاملے میں کلین چٹ دے دیا جاتا لیکن ٹی ایم سی کے مکل رائے نے جیسی حرکت کی کہ اس نے ای ڈی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور کر دیا ورنہ بی جے پی کے رہنما تو ایسے معاملے میں دریا دلی دکھا ہی رہے ہیں۔ مکل رائے کی راہ کو اپناتے ہوئے ٹی ایم سی کے سوون چٹرجی نے بھی یہی کام کیا اپنے گھوٹالے کی بدنامی کو لے کر 2019 میں آئے اور اپنی پاک دامنی کی سند لے کر پھر 2021 میں ٹی ایم سی میں چلے گئے ۔ گجرات کے ہاردک پٹیل کے کانگریس میں شامل ہوتے ہی انھیں ملک مخالف اور دیگر تقریباً 30 کیسوں میں گناہ گار بنایا گیا، کچھ دن جیل کی بھی ہوا کھلائی گئی اور پھر انھیں سمجھایا گیا کہ کانگریس والے تجھے وہ نہیں دے پائیںگے جو ہم دیںگے اور ہاردک پٹیل 2022 میں بی جے پی کے واشنگ مشین میں دھل دھلا کر اب وہ گجرات اسمبلی کی رونق بڑھا رہے ہیں ۔ کرناٹک میں ابھی اسمبلی انتخاب سے قبل جو کچھ دیکھا گیا اور وہاں کے لوک آیوکت جسٹس بی ایس پٹیل کا وہ بیان یاد کیجئے جو انھوں نے بی جے پی کے ایک نیتا کے گھر سے کروڑوں روپے ملنے کے بعد کہا تھا ، لیکن بچارے پٹیل صاحب اب بغلیں جھانک رہے ہیں۔ دوسری پارٹیوں میں کرپشن کے الزامات سے بری ہونے کے لئے بی جے پی جیسی ’پاک دامن‘ پارٹی میں شامل ہونے اور کلین چٹ پانے کی خواہش رکھنے والے بلکہ کامیاب ہونے والوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ میں کہاں تک شمار کروں ۔ ادھر کانگریس ہو ، ٹی ایم سی ہو یا دیگر حزب اختلاف کی پارٹیاں، یہ سب وزیر اعظم مودی کی بے حد شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ان کے بدنام زمانہ اور کرپشن میں ڈوبے کچڑوں کو اپنی پارٹی شامل کرکے ان کی پارٹی کو مسلسل صاف ستھرا کرنے میں منہمک ہیں ۔
لیکن ادھر ہمارے وزیر اعظم مودی ملک کے بدعنوانوں کو ان کے سابقہ کرپشن کے ریکارڈوں کو صاف ستھرا کرکے انھیں صلہ دینے میں مصروف رہے اور کرپشن کی مصیبت نے خود ان کے در پر دستک دے دی ۔ انتخابی بانڈ پر سپریم کورٹ نے جس طرح اس معاملے کا پردہ فاش کیا ہے اسے سن کر ہر شخص انگشت بدنداں ہے کہ حکومت کے زیر نگرانی اتنا بڑا گھوٹالہ ؟ اب غور کیجئے کہ الیکٹورل بانڈ کے نام پر جس طرح چندہ کا دھندہ چل رہا تھا وہ ناقابل یقین ہے لیکن پھر اندھ بھکتوں کی ایک بات یاد آتی ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے اور واقعی یہ ممکن ہو ا۔ ملک میں پھیلی ہزاروں بڑی کمپنیوں میں بہت ساری کمپنیوں کو کبھی ای ڈی سے ، کبھی انکم ٹیکس سے اور کبھی سی بی آئی سے ڈریا دھمکا یا گیا اور انھیں خوف زدہ کرکے ان سے کروڑوں روپے کا چندہ وصولا گیا ۔ چندہ کی رقم اکیلے بی جے پی کے پاس 92فیصد جمع کی گئی ہے اور یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ملک کی صرف تیس کمپنیوں نے 335 کروڑ کی رقم الیکٹورل بونڈ کے نام پر صرف بی جے پی کو دیا ہے ۔ ابھی اس گھوٹالے پر سے کئی راز کے پردوں کا ہٹنا باقی ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دراصل ایسے ہی پیسوں سے ممبر پارلیمنٹ و اسمبلی کے خرید فروخت کرکے حکومت گرانے اور بنانے کا چکر کافی دنوں سے چل رہا ہے ۔ اگر سپریم کورٹ مزید ہمت کرے تو ایسے نہ جانے کتنے گھوٹالوں کو پردہ فاش ہوگا۔
( مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS