اسلام آباد(ایجنسیاں) : پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کے بعد امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کو اپنی سرزمین پر اڈے استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔امریکہ کے ٹی وی’ایچ بی او‘کے پروگرام’ایکسیو‘ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان سی آئی اے اور امریکی اسپیشل فورسز کو افغانستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے پاکستان میں اڈے فراہم کرے۔
گزشتہ دنوں مقامی ذرائع ابلاغ سمیت غیر ملکی میڈیا میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ اسلام آباد امریکہ کو اڈے فراہم کر سکتا ہے۔ البتہ پاکستان کے دفترخارجہ کی طرف سے ان خبروں کی تردید کی گئی تھی۔واضح رہے کہ عمران خان کے انٹرویو کا ایک کلپ جاری کیا گیا ہے۔ باقی انٹرویو امریکی چینل پر بعد میں نشر کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق امریکہ اور ناٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں پر نظر رکھنے اور ان کے خلاف ممکنہ کارروائیاں کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک میں اڈے قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ بوقت ضرورت افغانستان میں کارروائیاں کی جا سکیں۔امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کا رواں مہینے کے آغاز میں کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر اس بات کو یقینی بنانے پر بات چیت ہوئی ہے کہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان کو امریکہ کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔تاہم اسلام آباد نے باضابطہ طور پر واشنگٹن کو بتا دیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد وہاں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے واشنگٹن کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان ماضی کے برعکس امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنا مشروط تعاون فراہم کر سکتا ہے۔
دوسری طرف طالبان کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ خطے میں امریکہ کے سیکورٹی اثاثے موجود رہیں۔افغان صدر اشرف غنی کا گزشتہ ماہ جرمن اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار انتہائی قلیدی ہے۔
پاکستان کا جمعہ کو کہنا تھا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بین الاقوامی ہوئی اڈے کی سیکورٹی کے لیے اسلام آباد کے تعاون کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ہفتے ناٹو اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ترکی کو غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں سیکورٹی مشن کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ہنگری کا تعاون بھی درکار ہو گا۔
زاہد حفیظ چوہدری نے جمعرات کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کابل ایئر پورٹ کی سیکورٹی کے لیے پاکستان کا تعاون فراہم کرنے کی تجویز زیرغور نہیں ہے۔ البتہ افغان امن عمل کے لیے اسلام آباد مناسب کردار ادا کرنے لیے پر عزم ہے۔
اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے قریبی تعلقات کے باوجود غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اسلام آباد کا کسی بھی سیکورٹی مشن کے لیے فوجی تعاون فراہم کرنے کا امکان کم ہی ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا عمل جاری ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ انخلا 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے مکمل ہو سکتا ہے۔
فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں امریکی کارروائی کے سوال پرپاک وزیراعظم کی وضاحت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS