پاکستانی نژاد کشمیری بہوؤں کی حالتِ زار،برسوں کا احتجاج مگر فریاد رساں کوئی نہیں

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    انکا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے لیکن برسوں ہوئے انہیں اربابِ اقتدار میں سے کوئی ہمدرد نہ ملا اور وہ ہی نہیں بلکہ انکے نھنھے بچے بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ کہانی ہے وادیٔ کشمیر میں مقیم ان بہوؤں کی ہے کہ جو پاکستانی نژاد ہیں اور بڑے ارمانوں کے ساتھ گھر بسانے کیلئے حد بندی لکیر کے اس پار آگئی تھیں ….  وہ بھی حکومتِ ہند کی باضابطہ اجازت کے ساتھ۔
    سرینگر میں آج ان بد قسمت خواتین نے پھر احتجاج کیا اور کہا کہ انکی زندگی روز بروز بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ انہیں پاکستان میں اپنے خاندانوں سے ملنے کیلئے جانے کی اجازت دی جائے اور یہاں ایک سرکاری شناخت دی جائے تاکہ وہ اور انکے بچے دربدر بھٹکنے کیلئے مجبور نہ ہوں۔احتجاجی مظاہرے کی واحد دسترس رکھنے والی ان خواتین میں سے ماہ جبین نامی ایک خاتون نے بتایا کہ یہاں کی سرکار کیلئے کچھ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم انہیں واپس پاکستان کی جانب دھکیل دیا جائے بھلے ہی انہیں پھر کبھی واپس لوٹنے کی اجازت نہ ہو۔
    جموں کشمیر میں قریب تیس سال قبل ہزاروں نوجوان ہتھیاروں کی تربیت لینے کیلئے حد بندی لکیر کو پار کرگئے تھے جن میں سے سینکڑوں نے پاکستانی زیرِ انتظام علاقے میں پہنچ کر اپنے ارادے بدل دئے اور وہیں پر رہتے ہوئے روزگار کمانا شروع کیا اور پھر شادیاں رچائیں۔عمر عبداللہ جموں کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ تھے کہ جب وقت کی مرکزی حکومت نے ایسے کشمیریوں کو اہل و عیال سمیت واپس لوٹنے کی اجازت دی اور یوں سینکڑوں خاندان حکومت کی باز آبادکاری پالیسی کے تحت نیپال کے راستے وطن لوٹ آئے۔انکی مانیں تو انہیں واپسلوٹ کر ’’قومی دھارے میں شامل ہونے کیلئے‘‘ کئی طرح کی مراعات کا وعدہ دیا گیا تھا تاہم یہ وعدہ ابھی تک وفا نہ ہوا۔
    پاکستانی نژاد ان کشمیری بہوؤں کا کہنا ہے کہ انکی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔جیسا کہ ماہ جبین کہتی ہیں ’’ہماری زندگی تو جانوروں سے بدتر ہے،ہمیں اپنے خاندانوں سے ملنے کی اجازت ہے اور نہ ہی یہاں پر ہمیں اور ہمارے بچوں کو کوئی قانونی حیثیت مل رہی ہے یہاں تک کہ ہمارے بچوں کا آدھار کارڈ بھی نہیں بن پارہا ہے جسکے بغیر انکے لئے اسکولوں وغیرہ میں داخلہ ملنا تک مشکل ہے‘‘۔ماہ جبین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رخسار نام کی ایک اور خاتون کہتی ہیں ’’ہم ایک حسین زندگی کا خواب لیکر اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے تھے لیکن یہاں آکر احساس ہوا ہے کہ ہماری زندگی تباہ ہوگئی ہے۔ہم میں سے کئی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں اور کئی ایک انتہائی غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں حالانکہ اپنے وطن میں ہم کھاتے پہتے گھرانوں کی بیٹیاں ہیں‘‘۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کم از کم پچاس ابھی تک بیوہ یا مطلقہ ہوچکی ہیں اور وہ انتہائی لاچارگی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔احتجاجی خواتین کہتی ہیں ’’ہم کئی سال سے احتجاج کرتی آرہی ہیں لیکن کوئی فریاد سُننے والا نہیں ہے۔ہم کوئی چاند تارے نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں سفری دستاویزات دئے جائیں تاکہ ہم اپنے وطن جاکر اپنے خاندانوں سے مل سکیں،ایسا نہیں تو کم از کم ہمیں ہمیشہ کیلئے واپس بھیجدیا جائے‘‘۔
    سرینگر کے ضلع کمشنر کے دفتر میں ایک افسر نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’یہ مسئلہ کئی سال سے بنا ہوا ہے لیکن اس میں مقامی سرکار نہ پہلے کچھ کرسکتی تھی اور نہ اب ہی کہ جب ہم ایک یونین ٹریٹری بن چکے ہیں۔یہ سب مرکزی وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کا کام ہے اور میرے خیال میں متعلقہ محکمے اس بارے میں غور کر رہے ہونگے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہیں پوری معلومات حاصل نہیں ہیں لیکن یہ کوئی تین سو یا اس سے تھوڑا زیادہ خاندان ہونگے جنکا یہ مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ان خواتین یا انکے بچوں کا کیا ہوگا وہ اس بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
    احتجاجی مظاہرین میں سے تاہم کئی خواتین نے کہا کہ وہ لیفٹننٹ گورنر کے مشیروں سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا ’’ہمارا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے لیکن بد قسمتی سے اسے ایک سیاسی مسئلے کی طرح دیکھا جارہا ہے۔ایک طرف یہاں کے عام لوگ ہمیں اور ہمارے شوہروں کو غداروں کی طرح دیکھتے ہیں تو دوسری جانب سرکاری حکام بھی آںکھیں بند کئے ہوئے ہیں ،نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی جانوروں کے جیسی بنی ہوئی ہے‘‘۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS