ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی
مسلمانوں کا حج سالانہ عالمی اخوت کانفرنس مساوات اسلامی کا طرامتیاز ہونے کے ساتھ معاشرتی ،اخلاقی اورروحانی اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے۔ حج مذہب اسلام میں بہت اہم فریضہ ہے۔ اس کی درست ادائیگی کے بعد زندگی کا رخ بدل جاتاہے۔ حج حاجیوں کی زندگی کو ہمیشہ ہمیش کیلئے اچھائیوں کی جانب پھیردینے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتاہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے حج کیااوراوراس میں شہوانی اورفحش امر کا ارتکاب نہ کیا اورنااللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوکر واپس ہوگا جیسا کہ ماں کے پیٹ سے معصوم پیدا ہواہے۔ (صحیح البخاری )اورجامع الترمذی میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ رسول ؐ سے نقل کرتے ہیں کہ حج مبرور کا صلہ صرف جنت ہے۔ چنانچہ ایسے سعادت مند برگزیدہ لوگوں کا استقبال کرنا مذہب اسلام میں قابل ستائش اورقابل قدر ہے۔ اسی وجہ سے امام المحدثین محمدبن اسماعیل نے اپنی مایاناز کتاب صحیح البخاری میں اس موضوع پر مکمل ایک باب قائم کیاہے اورعنوان لگایاہے کہ باب استقبال الحجاج القادمین اورعبداللہ بن عباس کی روایت پیش کی ہے کہ جب نبی کریمؐ مکۃ المکرمہ تشریف لائے تو بنی عبدالمطلب کے لڑکوں نے آپ کا استقبال کیا ،آپ ؐ نے ایک کوآگے بٹھایا اوردوسرے کو پیچھے بٹھالیا۔(بخاری)
لہٰذا حاجیوں کے استقبال کے لئے جانا چاہیے، البتہ عورتوں کا حاجیوں کے استقبال کے لئے جانے میں اگر بے پردگی، مردوں کے ساتھ اختلاط یا دیگر مفاسد پائے جاتے ہوں، تو عورتوں کا حاجیوں کے استقبال کے لئے جانا درست نہیں ہے۔
حج کے مناسک مکمل ہوچکے ہیں۔حجاجِ کرام اپنی اپنی سرزمین پر واپس لوٹ رہے ہیں۔جہاں سے لوٹ رہے ہیں اس جگہ کویہ عزت فقط حرمین شریفین کے صدقے ملی ہے۔ حرم مدینہ ہمارین نبی کریم ؐکی جائے ہجرت وسکونت ،ایمان کامرکز اورپہلی اسلامی ریاست ہے۔ یہاں مسجدنبوی ہے،روضہ اطہر ہے اورگنبدِ خضراہے۔ حرم مکہ میں ہماراقبلہ ہے۔جس کی طرف رخ کرکے پنج وقتہ نمازاداکی جاتی ہے۔ اسی حرم میں مناسکِ حج اداکیے جاتے ہیں۔حاجی جب احرام باندھ کریہاں آتے ہیں تو بوڑھوں میں بھی نئی توانائی آجاتی ہے۔سبز روشنیوں کے درمیان جوان اورادھیڑ عمر ہی نہیں بوڑھے بھی بھاگتے دکھائی دیتے ہیں ، یہ سوچے بغیر کہ وہ کیسے لگتے ہوں گے۔
عجیب بات یہ ہے کہ حاجیوں کی اکثریت ادھیڑ عمر بلکہ بوڑھے افرادپرمشتمل دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے اکثر متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔ ان کادینی دنیاوی علم بہت محدودہوتا ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف وہ اتنے طویل اورپرمشقت سفرکے لیے آمادہ ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ ترسارے مناسک خود اداکرتے ہیں، پیدل چل کر طویل فاصلے طے کرتے ہیں۔گھنٹوں قطارو ں میں کھڑے رہتے ہیں۔ نمازیںپابندی سے حرمین میں اداکرتے ہیں۔ تہجد کے لیے روزانہ بیدارہوتے ہیں۔ پھرمناسک حج کی ادائیگی اورزیادہ محنت ومشقت کاکام ہے۔ حاجی۹ذی الحجہ کو احرام باندھے مکہ کے آرام دہ ہوٹل چھوڑکر منیٰ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ہر سمت تلبیہ کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں۔
بیس پچیس لاکھ حاجی توخیموں میں ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی سات آٹھ لاکھ افرادوہ ہوتے ہیں جو سڑکوں کے کنارے ،فٹ پاتھوں پر ، خیموں کے درمیان گلیوں میں اورپہاڑیوں پر چادریں بچھائے ،تیز دھوپ سے بچنے کے لیے چھتریاں اور چھوٹے چھوٹے خیمے تانے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کامجاہدہ سب سے زیادہ ہے۔ان میں کروڑ پتی ،ارب پتی عرب حضرات بھی ہیں جو بیوی بچوں سمیت آتے ہیں اورفٹ پاتھوں پربیٹھ جاتے ہیں۔ 9 ؍ذی الحجہ کوحاجی بسوں میں ،ٹرین میں اورپیدل کشاں کشاں منیٰ سے عرفات کے وسیع میدان کی طرف لپکتے ہیں۔پھرغروب ِ آفتاب کے ساتھ حاجیوں کاسیلاب مزدلفہ روانہ ہوجاتاہے جہاں کا رش ہوش اڑادیتا ہے۔ کھوے سے کھواچھل رہاہوتاہے۔ راستے میں لوگوں کے بیٹھ جانے کی وجہ سے نقل وحرکت میں شدید دشواری ہوتی ہے۔خوب دھکے لگتے ہیں۔ بعض لوگ دب کربے ہوش ہوجاتے ہیں۔ نمازفجر کے کچھ دیر بعد لوگوں کاسیلاب ٹھاٹھیں مارتاہوا رمی کے لیے جمرات کی طرف نکل پڑتا ہے۔مرحلہ واررمی ،قربانی ،حلق اورطواف ِ زیارت کے مراحل اداہوجاتے ہیں ،جس کے بعداحرام کھل جاتے ہیں۔ فریضہ ٔحج اداہوجاتاہے۔
اب منیٰ سے قافلے مکہ واپس آجاتے ہیں ،اورایک ترتیب سے ان کی اپنے اپنے ملکوں کوروانگی شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت الحمدللہ عازمینِ حج مناسک سے فارغ ہوکروطن واپس آرہے ہیں۔ہندوستان سمیت کئی ملکوں کے ایئرپورٹوں پر حجاج کرام کی اترنے والی پروازوں کے استقبال کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہورہے ہیں۔ حجاجِ کرام کے چہروں پر خوشی اوراطمینان ہے۔اللہ نے انہیں بہت بڑی سعادت نصیب کردی ہے۔ حج نے طبیعتوں کو صاف کردیاہے،جسم کو جفاکشی کاعادی بنادیاہے۔ اللہ سے تعلق جڑ گیا ہے۔ گناہوں اورمنکرات کے ماحول سے طبعی نفرت عام ہوگئی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حجاجِ کرام اس شرف اوراس عزت کوملحوظ رکھتے ہوئے زندگی کے باقی ایام اللہ کی مکمل اطاعت، معاصی سے اجتناب،سنتوں کی پابندی اوراخلاقِ حسنہ کی پاس دار ی کے ساتھ گزاریں۔ پنج وقتہ نمازوں میں کبھی کوتاہی نہ ہونے دیں۔ چہر ے پر سنت کانور آنا حج کے قبول ہونے کی علامت ہے۔ زبان اورہاتھ سے کسی کوتکلیف نہ پہنچنے دینااس بات کی دلیل ہے کہ حاجی نے اپنے مقام کو پہچان لیاہے۔اس کے برعکس اگر حاجی ،حج کرکے بھی سابقہ زندگی کی طرح نمازیں ترک کرنے،سودکھانے، رشوت لینے ،جھوٹ بولنے،حقوق کی پامالی ،وراثت میں بیٹیوں کے حصہ کی حق تلفی اوردوسرے گناہوں میں ملوث رہے تواس کامطلب ہے کہ اس نے اپنے حج سے کوئی اثر نہیں لیا۔
حاجی کوچاہیے کہ وہ اُمت کاایک فعال عنصر بن کردکھائے۔ مسلمانوں کی بقا،سربلندی،دین کی اشاعت وحفاظت ،ایمان وتقویٰ کی عملی تبلیغ اورقوم میں اتحادواتفاق کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔حاجی اللہ کاوفد ہیں۔ رسول اللہ کے مہمان ہیں۔ ان کے اعزازواکرام کے طورپر ان کی دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔وہ ان دعاؤں کواپنی دینی ودنیوی ضرورتوں کے علاوہ اُمت کی حالت کے سدھرنے کے لیے استعمال کریں۔حاجی ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں ،بشرطیکہ وہ اپنے مقام کوپہچانیں۔ اگر ہرسال حج کرکے آنے والے لگ بھگ ایک لاکھ افراداپنی زندگیاں تبدیل کرکے انفرادی اوراجتماعی طورپر اسلام کے سپاہی بن جائیں توہمارے حالات بدلنے میں دیرنہیںلگے گی۔اوراسلامی معاشرہ امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے گاجہاں حقوق العباد کی پاسداری اورعدل وانصاف کے قیام کا عملی نمونہ نظرآئے گا۔