شادی کا فلسفہ اور مقصد : محمد قمر الزماں ندوی

0

محمد قمر الزماں ندوی

معاشرتی زندگی کی بنیاد نکاح ہے،یہ کام شریعت اسلامی میں بہت ہی پسندیدہ اور عند اللّٰہ مستحسن ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ازدواجی تعلق قائم کرکے اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی خوشی خوشی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔اسلام میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے، اور رہبانیت یعنی بلا شادی زندگی گزارنا مذموم ہے،نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،،ولقد ارسلنا رسلنا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریتہ،، (سورہ رعد) اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے دیے۔
حضرت ابن عباس رض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچ چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں حیاء،بردباری وتمحل،حجامت،خوشبو،اور نکاح۔
صالح اور نیک کار بندوں نے نیک و صالح بیوی اور اولاد کے لیے دعا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ)’’اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت عطا فرما‘‘
شادی شدہ ایک ایسے سکون و اطمینان اور محبت و الفت سے ہمکنار ہوتا ہے، جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں ہوسکتا۔۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نکاح ایک ایسی دولت اور نعمت ہے بلکہ یہ وہ عبادت ہے، جس کے ذریعہ انسان کو سکون واطمینان اور صحت و عافیت نصیب ہوتی ہے، اس کے اندر ایثار و قربانی محبت و الفت،اجتماعی زندگی گزارنے اور مل جل کر رہنے کا جذبہ اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے،نکاح کے بے شمار فائدے ہیں،ایک مومن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ذریعہ اس کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے اور ایمان ایسی بیش قیمت دولت ہے جس کا دنیا میں کوئی عوض اور بدلہ نہیں ہوسکتا، اس کا بدلہ خدا کی خوشنودی اور جنت ہے۔ نکاح شریعت اسلامی کی نظر میں عبادت بھی ہے اور ایک معاہدہ اور پیکٹ بھی، لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے، اس کو محض ایک معاہدہ،رسم اور پیکٹ سمجھتے ہیں،جبکہ نکاح عقد اور معاہدہ کے ساتھ ایک اہم عبادت بھی ہے،نکاح کی مجلس میں شرکت کرنے والا،عقد کرانے والا،گواہ بننے والا،ایجاب و قبول کرانے والا،اور اس مسنون اور مبارک مجلس میں شرکت کرنے والے کا مقام نفلی عبادت کرنے والے سے بڑھ کر ہے۔
بقول حضرت علی میاں ندوی ؒ ’’عام عبادت نماز،روزہ حج اور زکوٰۃ جز وقتی عبادت ہے،جس وقت یہ عبادت آپ انجام دیتے ہیں اس وقت آپ کو اس کا ثواب ملتا ہے، پھر دوبارہ جب انجام دیں گے تب ملے گا،لیکن نکاح ایک کل وقتی یعنی پوری زندگی عبادت ہے، اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، کبھی رکتا اور ختم نہیں ہوتا، آخری سانس تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھنے پر،ایک دوسرے کی خدمت کرنے پر،ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر،میاں بیوی کے باہمی حقوق ادا کرنے پر، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے پر ملتے رہتا ہے،اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ شریکین کے درمیان تاحیات جاری رہتا ہے‘‘
یہاں امام الہند مولاناابوالکلام آزاد کا ایک خط نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے ایک عزیز کو شادی کے موقع پر لکھا تھا، جس میں شادی کے فلسفہ پر اسلامی نقطہ نظر سے مدبرانہ اور فاضلانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:عزیزی! تمھارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی،تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمھاری شادی ہو رہی ہے میرے لیے ممکن نہیں کہ اس موقع پر شریک ہو سکوں لیکن یقین کرو کہ میری دل کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔اللہ تعالی اس تقریب کو برکت وسعادت کا موجب بنائے اور تمھاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔
میں اس موقع پر تمھیں یاد دلاؤں گا کہ بحیثیت مسلمان تمھیں چاہیے۔ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے سامنے رکھو جو قرآن حکیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ خدا کی حکمت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیے ہیں یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کیلیے مرد لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟اس لیے کہ تمھاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مطمئن اور خوش حال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں: سکون مودت رحمت لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ۔
’’سکون‘‘عربی زبان میں ٹھراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تمھاری زندگی میں ایسا ٹھراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی پریشانیاں اور بے چینیاں اسے ہلا نہ سکیں۔’’مودت‘‘ سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لیے رشتہ جوڑتی ہے تا کہ ان کی ملی جلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں۔لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مراد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دیں اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظراننداز کرنے کیلیے اپنے دلوں کو تیار رکھیں’’رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دیتا ہے‘‘ ایک خود غرضانہ محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے غلطیاں، خطائیں بخش دے۔ غصہ، غضب اور انتقام کی پرچھائیاں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔(ابوالکلام آزاد)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS