پانی، زمین اور عوام کیلئے خطرہ بنتی کیڑے مار ادویات

0

پنکج چترویدی

زراعت میں کیمیکلز کے استعمال کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سانس لینے میں دقت، کینسر، تھکان جیسی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ یہ بات اکیڈمی آف مینجمنٹ اسٹڈیز، لکھنؤ اور حیدرآباد کی طرف سے ہماچل پردیش کے22 ترقیاتی بلاکوں کے کسانوں پر کیے گئے حالیہ سروے میں سامنے آئی ہے۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کیڑے مار ادویات استعمال کرنے والے16 فیصد کسان کینسر کے شکار ہو جاتے ہیں۔ 40 فیصد کسان سر درد اور39 فیصد قے کی شکایت کرتے ہیں۔ اگر مختلف ریاستوں کی گزشتہ ایک ماہ کی زونل خبروں پر نظر ڈالیں تو ملک کے مختلف حصوں میں کم از کم 50 ایسے واقعات سامنے آئے جب کھیتوں میں چھڑکی گئی دوا سانس کے ذریعے کسانوں کے جسم میں پہنچ گئی اور انہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
بدلتے موسم میں کاشتکاری بہت چیلنج والا کام ہے۔ کم وقت میں زیادہ فصل کے لیے کسان بازار سے بیج خرید رہا ہے اور چھپے ناموں سے بیچے جا رہے موڈیفائیڈبیجوں میں مختلف قسم کے کیڑوں کے خوف کے پیش نظر کسان وقت سے پہلے ہی اور بے شمارکیڑے مار دوا لگا رہا ہے۔ وہ چھڑکاؤ کے لیے چین میں بنائے گئے ایسے پمپ استعمال کرتے ہیں، جن کی قیمت کم اور رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ کسان برہنہ جسم کھیت میں کام کرتے ہیں، نہ دستانے اور نہ ہی ناک اور منہ ڈھانپنے کا انتظام۔اس پر تیز رفتار چھڑکاؤ والا چین میں بننے والا پمپ۔ دوا کا زہر کسانوں کے جسم میں گہرائی تک داخل ہو جاتا ہے۔ کچھ کی آنکھوں پر اثر ہوتا ہے تو کئی کو جلد کے امراض ہو جاتے ہیں جس پر کسان فوری توجہ نہیں دیتے۔
ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً دس ہزار کروڑ روپے کی فصل کھیتوں یا گوداموںمیں کیڑوں کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے۔ اس ضیاع سے بچنے کے لیے کیڑے مار ادویات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ سال1950 میں جہاں ملک میں کیڑے مار ادویات کی کھپت 2000 ٹن تھی وہیں اب یہ بڑھ کر90 ہزار ٹن ہو گئی ہے۔ 60 کی دہائی میں ملک میں جہاں 6.4 لاکھ ہیکٹیئر رقبے میں کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا وہیں اب1.5 کروڑ ہیکٹیئر رقبے میں کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے اناج، سبزیوں، پھلوں اور دیگر زرعی مصنوعات میں کیڑے مار ادویات کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ پائی گئی ہے۔ یہ کیڑے مار دوائیں نادانستہ طور پر پانی، مٹی، ہوا، صحت عامہ اور حیاتیاتی تنوع کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ ان کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے جس کی وجہ سے کئی کیڑے مکوڑوں کی بیماریاں دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں۔ بہت سے کیڑوں کی قوت مدافعت بڑھ گئی ہے اور وہ ادویات کو ہضم کر رہے ہیں۔ اس کا اثر فوڈ چین پر پڑ رہا ہے اور ان میں ادویات اور کیمیکلز کی مقدار خطرناک سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ایک اور بات، استعمال کی جا رہی ادویات میں سے صرف 10 سے 15 فیصد ہی مؤثر ہوتی ہیں، باقی زہر مٹی، زیر زمین پانی، ندیوں اور نالوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ کیڑے مار ادویات اور ان کے اثرات کا جائزہ لینے والی ایک تنظیم کیئر ریٹنگ کے مطابق ہندوستانی غذائی اشیا میں کیڑے مار ادویات کی باقیات 20 فیصد تک ہوتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر یہ صرف دو فیصد تک ہوتی ہیں۔
جیسے جیسے کاشتکاری پر آب و ہوا میں تبدیلی اور لاگت بڑھنے کاخطرہ بڑھ رہا ہے، کسانوں نے فصل کے صارفین کی صحت پر مضر اثرات کی پروا کیے بغیر کیڑے مار ادویات اور کیمیکلز کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ملک میں کیمیائی کیڑے مار ادویات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سال2015-16 کے دوران جہاں ملک میں اس طرح کی تقریباً 57 ہزار میٹرک ٹن کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا گیا تھا وہیں اب اس کے بڑھ کر تقریباً65ہزار میٹرک ٹن ہونے کا اندازہ ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹر اور اترپردیش سرفہرست ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ ایک طرف کھیت میں کیمیکل چھڑکے، پھر سینچائی ہوئی یا بارش آئی تو اضافی زہر بہہ کر قریبی ندی-تالاب میں بہہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی، متھرا، آگرہ جیسے شہروں میں پینے کے پانی کی سپلائی کا اہم ذریعہ جمنا کے پانی میں ڈی ڈی ٹی اور بی ایس جی کی مقدار جان لیوا سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہاں دستیاب سبزیوں اور گوشت دونوں غذائی اشیا میں ان کیڑے مار ادویات کی کافی مقدار پائی گئی ہے۔ اوسط ہندوستانی کی روزانہ کی خوراک میں تقریباً 0.27 ملی گرام ڈی ڈی ٹی پایا جاتا ہے۔ دہلی کے شہریوں کے جسم میں یہ مقدار سب سے زیادہ ہے۔ یہاں دستیاب گندم میں 1.6 سے 17.4 حصہ فی 10 لاکھ، چاول میں 0.8 سے 16.4حصہ فی 10 لاکھ، مونگ پھلی میں3 سے 19.1 حصہ فی 10لاکھ مقدار ڈی ڈی ٹی موجود ہے۔ مہاراشٹر میں بوتل بند دودھ کے 70 نمونوں میں ڈی ڈی ٹی اور ایلڈرن کی مقدار 4.8 سے 6.3 حصہ فی 10لاکھ پائی گئی ہے جبکہ اجازت صرف 0.66 کی ہے۔ ممبئی میں ٹنکی والے دودھ میں تو ایلڈرن کا حصہ96 تک تھا۔
اب بڑی مقدار میں کیمیکلزکا استعمال فصلوں کے لیے بھی نقصان دہ ہو رہا ہے۔پنجاب میں کپاس کی فصل پر سفید مکھیوں کے لاعلاج حملوں کی بڑی وجہ کیمیائی کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا جانا پایا گیا ہے۔ اب ٹماٹر کو ہی لے لیں، ان دنوں ٹماٹر کی اچھی اقسام ’روپالی‘ اور ’رشمی‘ ٹماٹروں کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ان اقسام کو سب سے زیادہ نقصان ہیلیوشس آرمیجرا نامی کیڑے سے ہوتا ہے۔ ٹماٹر میں سوراخ کرنے والے اس کیڑے کی وجہ سے آدھی فصل برباد ہو جاتی ہے۔ ان کیڑوں کو مارنے کے لیے مارکیٹ میں روگر ہالٹ، سپر کلر، ریپ لین اور چیلنجر نامی ادویات دستیاب ہیں۔ ان ادویات پر لکھا ہوتا ہے کہ ان کا استعمال ایک فصل پر چار سے پانچ مرتبہ سے زیادہ نہ کیا جائے لیکن یہ سائنسی وارننگ نہایت باریک اور انگریزی الفاظ میں درج ہوتی ہے جسے پڑھنا اور سمجھنا کسان کی استطاعت سے باہر ہے، لہٰذا لالچ کی وجہ سے کسان اس دوا کا چھڑکاؤ 25سے30 مرتبہ کر دیتا ہے۔ شاید ٹماٹر پر کیڑے تو نہیں لگتے ہیں لیکن اس کو کھانے والے انسان کئی سنگین بیماریوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ ان ادویات سے علاج کیے گئے سرخ سرخ خوبصورت ٹماٹروں کو کھانے سے دماغ، ہاضمے کے اعضا، گردے، سینے اور اعصابی نظام پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے کینسر ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ کیڑے مار ادویات پر چھپی ہوئی معلومات پر عمل نہ کرنے کا مسئلہ صرف ٹماٹر تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت وسیع ہے۔ ان دنوں بازار میں دستیاب چمکدار بھنڈی اور بینگن دیکھنے میں تو بہت پرکشش ہوتے ہیں لیکن کھانے میں اتنے ہی مہلک! بینگن کو چمکدار بنانے کے لیے اسے فولیڈز نامی کیمیکل میں ڈبویا جاتا ہے۔ بینگن میں گھول کو جذب کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے بینگن فولیڈز کی بڑی مقدار جذب کرلیتے ہیں۔ اسی طرح بھنڈی کو چھید کرنے والے کیڑوں سے بچانے کے لیے زہریلی دوا کا اسپرے کیا جاتا ہے۔ ایسی کیڑے مار ادویات والی سبزیوں کے مسلسل استعمال کی وجہ سے سانس کی نلی بند ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گندم کو کیڑوں سے بچانے کے لیے میلاتھیان پاؤڈر کو ملایا جاتا ہے۔ اس پاؤڈر کے زہر کو گندم کو دھوکر بھی دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ کیمیکل انسانی جسم کے لیے زہر کی طرح ہے۔
وقت آگیا ہے جب کسانوں کو آب و ہوا میں تبدیلی کے مطابق مقامی سطح پر اس کے لیے موزوں بیج وغیرہ کی مناسب تربیت دی جائے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہماری روایتی کاشتکاری، ہمارے بیج اور دیسی علاج فصل کو محفوظ اور زہر آلود ہونے سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یقینا کیڑے مار ادویات کی ایک بڑی مارکیٹ ہے اور اس کے خلاف جانا ایک چیلنج ہے لیکن انسانی صحت، خوراک کی غذائیت، زمین کی زرخیزی اور پانی کی خوبی کو برقرار رکھنے کے لیے کیمیائی کیڑے مار ادویات پر کنٹرول ضروری ہو گیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS