عوام کے سوال غائب

0

رگھو ٹھاکر

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج موضوع بحث ہیں۔ سب سے زیادہ بحث تین ریاستوں کے نتائج کے تعلق سے ہے۔ میزورم چھوٹی ریاست ہے اور تلنگانہ بھی ہندوستان کے شمالی اور وسطی علاقوں میں خاص چرچہ کا موضوع نہیں رہا ہے۔
راجستھان کے بارے میں عام بحث رہی ہے کہ وہاں ہر پانچ سال میں حکومت بدل جاتی ہے۔ حالاں کہ کچھ لوگ پراعتماد تھے کہ یہ روایت اس بار ٹوٹ جائے گی۔ لیکن ان کی امید ٹوٹ گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اشوک گہلوت سنجیدہ سیاسی لیڈر سمجھے جاتے ہیں، لیکن کانگریس کی جو مستقل روایت رہی ہے کہ کانگریس کی قیادت خودبخود ہر ریاست میں دو یا اس سے زیادہ گروپ بناتی ہے، پھر انہیں آپس میں لڑاتی ہے تاکہ قیادت کو کبھی کوئی چیلنج نہ ملے۔ اشوک گہلوت کی ہار اسی دن یقینی ہوگئی تھی جب انہوں نے اعلیٰ کمان کے خلاف قومی صدر کے عہدہ پر پرچہ بھرا تھا اور پھر اعلیٰ کمان نے انہیں اپنے ہتھکنڈوں کے ذریعہ انتخابی میدان سے باہر ہونے کا کھیل کھیلا تھا۔ سچن پائلٹ کے پیچھے بھی اعلیٰ کمان کا ہی ہاتھ تھا۔
چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل اور ٹی ایم سنگھ دیو کے مابین کٹھ پتلی کی لڑائی بنانے کے پیچھے بھی اعلیٰ کمان کا ہاتھ تھا۔ کانگریس اعلیٰ کمان کی یہ روایت رہی ہے کہ ایک طرف تو وہ معلوم نامعلوم اسباب سے وزرائے اعلیٰ کو پانچ سال کا ’مکت راج‘ کا ٹھیکہ دیتے ہیں اور دوسری جانب انہیں باقاعدہ دربار میں حاضر ہونے کے لیے کوئی مخالف کھڑا کرکے اسے ہوا دیتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شکست کے پیچھے اور بھی اسباب بتائے جاتے ہیں۔ بعض چاپلوس وزرا اور اپنے گروپ کے لوگوں کو بڑھاوا دینے کے لیے علاقہ بدلنے کی منظوری اور جیتنے کے امکانات والے ممبران اسمبلی کا ٹکٹ کاٹنا۔ جن جن وزرا کے علاقے بدلے اور جن جن ممبران اسمبلی کے ٹکٹ کاٹے گئے، وہاں پر زیادہ تر مقامات پر کانگریس کو شکست ہوئی۔ بدعنوان اور چاپلوس وزرا کی چاپلوسی کے جال میں پھنس کر وزیراعلیٰ نے خود اپنی جڑیں کمزور کیں۔ وزیراعلیٰ کا تکبر اور ان پر بدعنوانی کے الزامات نے بھی لوگوں کے دل میں خاموش غصہ پیدا کردیا تھا، جو میڈیا کی تشہیر میں اوپر نظر نہیں آتا تھا، مگر اندر سے مؤثر تھا۔ قبائلیوں کے مسائل کے تئیں وزیراعلیٰ سنجیدہ نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جن معاملات سے وہ ذاتی طور پر واقف تھے، ان معاملات کا بھی انہوں نے سیاسی اسباب سے حل نہیں نکالا۔ کانگریس اعلیٰ کمان نے پی ایل پنیا کو چھتیس گڑھ کے انچارج سے ہٹاکر شیلجا کو انچارج بنایا، مگر کارکنان سے جس شدت کے ساتھ پنیا نے رابطہ کیا تھا، وہ نہیں ہوسکا۔
مدھیہ پردیش کے نتائج بھی بہت لوگوں کی توقعات کے برعکس تھے۔ اگرچہ میرے خود کے اندازے کے برعکس نہیں تھے۔ میں نے متعدد صحافیوں اور دوستوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ مدھیہ پردیش کانگریس پارٹی خود اپنے آپ اپنے حمایتی لوگوں کو روزانہ کم کررہی ہے۔ کیوں کہ کمل ناتھ کا بڑبولاپن اور غیرمتوازن زبان اور کانگریس کے دیگر اہل خانہ کے غیرمتوازن اور غیرمہذب بیانوں نے بھی کانگریس کو نیچے لانے میں کردار نبھایا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کانگریس نے کرناٹک کی جیت کے بعد سمجھ لیا تھا کہ بس، اب ان کا وزیراعظم بننے والا ہے اور انہوں نے نظریاتی اور علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لینے کے بجائے انہیں ختم کرنے یا بے بس کرنے کی حکمت عملی اپنائی، جس کا اثر الٹا ہونا ہی تھا۔ چھوٹی اور نظریاتی پارٹیوں کا تقریباً ڈھائی سے تین فیصد ووٹ، جو کانگریس کی تعداد میں اضافہ کرسکتا تھا، منتشر ہوگیا۔ یہاں تک کہ کانگریس قیادت نے اپنے تکبر میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو بھی نپٹا دیا۔ اگرچہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کوئی پالیسی ساز اتحاد نہیں ہے، لیکن وہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے سنگین نتائج مستقبل میں کانگریس اور اس کے اعلیٰ کمان کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ کانگریس نے بی جے پی سے مقابلہ کے لیے بی جے پی کی ہی نقل کرنی شروع کردی۔ وہ سارے کام جو بی جے پی کرتی تھی، کانگریس نے بھی شروع کردیے۔ مدھیہ پردیش میں تو لگتا تھا جیسے الیکشن کانگریس اور بی جے پی کے درمیان نہیں، بلکہ دو بجرنگ بلیوں کے درمیان ہے۔ کس کے ہنومان کی مورتی کتنی بڑی ہے، کس کا کتنا جذبۂ عقیدت ہے، یہی کسوٹی تھی یعنی بالآخر کانگریس نے بی جے پی کی سیاسی لائن کو ہی مضبوط کیا۔ اس سے جہاں ایک طرف ہندو ووٹرس کی صف بندی بی جے پی کے حق میں ہوئی، وہیں مسلم ووٹر بھی اپنے مذہبی دائرہ سے باہر نہیں نکلے۔ اب تقریباً صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ دو صف بندیاں(مذہبی) اثرانداز ہورہی ہیں۔
اس کا فی الحال تو زیادہ برا اثرہم سوشلسٹ پر ہورہا ہے، جو کسی کٹہرے میں نہیں ہیں، نہ ہندو کے نہ مسلمان کے۔ لاڈلی بہنا اور وزیراعلیٰ کے تقریباً تین لاکھ کروڑ روپے کے اعلانات نے بھی الیکشن پر اثر ڈالا اور بی جے پی کے ووٹوں میں اچھا خاصا اضافہ ہوا۔ کانگریس کی تنقید سے ووٹر خوفزدہ ہوگئے تھے کہ کہیں کانگریس کے آنے سے چھوٹے چھوٹے فائدوں کے یہ اعلانات بند ہی نہ ہوجائیں اور اس لیے انہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ اپنی اصلیت چھپانے اور ہار کو مشتبہ بنانے کی روایت کے مطابق کانگریس کے کچھ لیڈروں نے ای وی ایم کی بحث پھر شروع کردی۔ جہاں کانگریس یا دیگر اپوزیشن پارٹیاں جیت جاتی ہیں تو وہاں ای وی ایم کا الیکشن ٹھیک رہتا ہے۔
کانگریس پارٹی کا اعلیٰ کمان گلوبلائزیشن کی اولادوں سے بڑا متاثر ہے۔ این جی او اور سول سوسائٹی، جو ایک طرح سے تنخواہ دار اور اشرافیہ کلاس کے مترادف ہیں، کو کانگریس کا اعلیٰ کمان مؤثر مانتا ہے جبکہ زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ ملکی اورغیرملکی پیسے سے چلنے والی تحریک عوام کی نہیں ہوتیں، بلکہ پروپیگنڈہ اور فرضی مسائل کی ہوتی ہیں۔ فرقہ واریت اور جمہوریت کے نام پر گزشتہ کچھ برسوں سے ایسی کوشش شروع ہوئی ہے، جس کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ اس نقلی بحث نے اصلی سوالات اور عوام کے ایشوز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور عام آدمی کے سامنے متبادل کے نام پر کنواں اور کھائی کھود دی ہے اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کنویں میں گرنا چاہتے ہیں یا کھائی میں۔ جمہوریت کے اصل معنی اور جذبہ کو چالاکی کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے فرقہ واریت سے ڈھکا جارہا ہے۔ عام عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ کب تک حکومت کے سامنے کٹورا لے کر کھڑے رہوگے۔ کیا مساوات کا معاشرہ اور نظام بنانے پر غور کروگے؟ کارپوریٹ کے پیسے یا بدعنوان سیاست کے پیسے سے کب تک ووٹرس فروخت ہوتے رہیں گے اور کیا اس سے جمہوریت کی کوئی بہتر شکل آسکتی ہے؟
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS