مذہبی جنون کے گرداب سے باہر نکلتے عوام: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

18ویں پارلیمان کے انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو اتنی نشستیں نہیں ملنا کہ وہ اپنی طاقت پر حکومت سازی کرکے سیاہ اور سفید کے ریموٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھ سکے،کو اس لیے بھی اچھے شگون کے طور پر دیکھا جا نا چاہیے کہ اس الیکشن میںعوام نے مذہبی جنون کے گرداب سے باہر نکل کر اپنے دل کی آواز پر فیصلہ لینے کی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ بی جے پی نے اپنے لیے کشمیر سے ہٹائی گئی دفعہ کے تحت 370 اور ’این ڈی اے‘ کے لیے 400 پار کا نشانہ تجویز کیا تھا، لیکن بی جے پی اور این ڈی اے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اس کے باوجود نریندر مودی 9جون 2024کو71وزراء کے ساتھ حکومت سازی کرکے تیسری مرتبہ دہلی کے تخت پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے۔ مودی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے حزب اختلاف کے ذریعہ کانگریس کی قیادت میں ’آئی این ڈی آئی اے‘ کی تشکیل کی گئی تھی،لیکن الیکشن سے قبل بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے پلٹی مارکر ’ این ڈی اے‘ میں شامل ہونے اور ’آر ایل ڈی‘ کے رہنما جینت چودھری کے ساتھ چھوڑنے سے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کمزور تو ہوا، لیکن کانگریس اور اس میں شامل جماعتوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا،جب کہ این ڈی اے کی قیادت کر رہی بی جے پی کے پاس اپنی ساکھ بچانے اور پھر سے اقتدار میں آنے کا زبردست دباؤ تھا۔

انتخابات کے 7مراحل مکمل ہونے کے بعد4جون کو جو رزلٹ آیا،اس نے جہاں’اب کی بار،مودی سرکار‘ کے نعرے کو خارج کرکے ’اب کی بار،این ڈی اے سرکار‘ کو ترجیح دی،وہیں حزب اختلاف الائنس کو بھی اقتدار سے دُور رکھا۔اس الیکشن میںبی جے پی 240نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی توبنی،لیکن وہ اپنے دَم پر سرکار بنانے میںکامیاب نہیں ہوسکی۔ٹی ڈی پی کو16، جنتا دل(یو) کو12، شیوسینا (شندے) کو 7، لوک جن شکتی پارٹی (چراغ ) کو5،جنتا دل ایس،راشٹریہ لوک دل اور جن سینا کو2-2 و دیگر کو5سیٹیں ملیں۔دوسری جانب کانگریس 99سیٹوں کے ساتھ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بننے میں کامیاب ہوئی۔ایس پی کو37،ڈی ایم کے کو 22، شیوسینا(یو بی ٹی) کو9، این سی پی(شرد) کو 7 اور دیگرجماعتوں کو31نشستیں ملیں۔ ترنمول کانگریس کو29، بیجوجنتادل کو1اور دیگرکو13سیٹیں حاصل ہوئیں۔ 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں ’ مودی برانڈ‘کا وسیع اثر اور’ ہندوتو‘ کا جوجنون ووٹروں کے سر چڑھ کر بولا تھا، وہ2024کے الیکشن میں نظر نہیں آیا۔ عوام نے ’رام مندر‘،’یکساں سول کوڈ‘، ’دفعہ370- ‘، ’ہندوتو‘ اور’قوم پرستی‘ جیسے مذہبی ایشوز کو درکنار کردیا۔ انہیں ’انڈیا‘ کے ریزرویشن اور آئین بچاؤ مہم میں جان نظر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی،اجے مشر ٹینی، مہندرناتھ پانڈے، نرنجن جیوتی، سنجیوبالیان، کوشل کشور، راج کمار، ارجن منڈا، راجیو چندرشیکھر، کیلاش چودھری، ایل مروگن، سبھاش سرکار اور وی مرلی دھرن سمیت18وزراء کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی کو سب سے زیاددہ نقصان بلڈوزر بابا کے صوبہ اترپردیش میںپہنچا۔80سیٹوں والی ریاست میں 2014میں 71اور 2019 میں 62 نشستیں جیتنے والے این ڈی اے کو 33سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔سماج وادی پارٹی نے شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 37 سیٹیں حاصل کیں۔ کانگریس نے6نشستیں جیتیں،لیکن کہا جا رہا ہے کی ایس پی کو الائنس کی بنا پر کانگریس کا ووٹ منتقل ہونے کا فائدہ پہنچا۔کانگریس نے2009میں 21سیٹوں پر جیت درج کی تھی، جب کہ 2014 میں 2 اور2019 میں صرف1نشست پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔حالاںکہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے ہندومسلم اور مذہبی کارڈ کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اذان، ہنومان چالیسہ، مافیامسلم لیگ، نماز، کانوڑیاترا، پاکستان دہشت گرد، مندر مسجد، پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر، دفعہ370-، مسلم ریزرویشن، وراثت اور منگل سوتر سمیت کئی حربے استعمال کیے،لیکن کوئی بھی حربہ اسے خاطرخواہ فیض نہیں پہنچا سکا۔ بی جے پی رام مندر کی تعمیر اور ’پران پرتشٹھا‘ کا فائدہ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ روٹی، کپڑا، مکان،علاج،تعلیم اور انصاف کو اہمیت دیتے ہوئے رائے دہندگان نہ صرف مذہبی جنون اور دھارمک بھٹکاؤ سے باہر نکلے، بلکہ انہوں نے مہنگائی کم کرنے،بے روزگاری دور کرنے،کسانوں اور مزدوروں کے مسائل حل کرنے اور روزمرہ کی ضرورتوں کے حصول کے لیے ووٹ دینے کا فیصلہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ رام مندر کی تعمیر اور پران پرتشٹھا والے ایودھیا حلقے میں تو بی جے پی کی شکست ہوئی ہی،اردگرد کی سیٹوں پر بھی ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ ایودھیا کمشنری میں بی جے پی کا کھاتا بھی نہیں کھل سکا۔ فیض آباد سیٹ پر ایس پی کے اودھیش پرساد نے بی جے پی کے للو سنگھ کو ہرایا۔امیٹھی میں کانگریس کے کشوری لال شرما نے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو شکست دی۔بارہ بنکی میں کانگریس کے تنوج پونیا نے بی جے پی کی راج رانی راوت کو مات دی۔امبیڈکر نگر سے ایس پی کے لال جی ورما نے بی جے پی کے رتیش پانڈے کو ہرایا۔سلطان پور سیٹ سے ایس پی کے رام بھو آل نشادنے8مرتبہ کی پارلیمانی رکن مینکا گاندھی کو شکست دی۔ رائے بریلی سے راہل گاندھی نے بی جے پی کے دنیش پرتاپ سنگھ کوکراری مات دی۔ کھیری سے اجے مشر ٹینی کو ایس پی کے اُتکرش ورما نے ہرایا۔دھورہرا میں ایس پی کے آنند بھدوریا نے بی جے پی کی ریکھا ورما کو شکست دی۔ سیتا پور سے کانگریس کے راکیش راٹھورنے بی جے پی کے راجیش ورما کو مات دی۔

بی جے پی نے انتخابات کے ہر مرحلے کے لیے الگ سے حکمت عملی تیار کی تھی،لیکن اسے اس کا خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ پہلے مرحلے کے الیکشن میں بی جے پی نے کانگریس کے مینی فیسٹو کو مسلم لیگ کا مینی فیسٹو قرار دے کر ووٹروں کو ہندو- مسلم میں تقسیم کرنے کی کو شش کی۔ مسلم پرسنل لاء کی حمایت اور یو سی سی کی مخالفت کو ایشو بنایا گیا، لیکن یہ داؤ اُلٹے پڑے۔این ڈی اے 37سے گھٹ کر 31 سیٹوں پر آگیا، جب کہ کانگریس و اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے7سے بڑھ کر53سیٹیں حاصل کیں۔دوسرے مرحلے میں بی جے پی کے قائد ایشوز سے ہٹ کروراثت اور منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دینے پر آگئے۔جس بانسواڑہ میں یہ بیان دیا گیا تھا،وہاں کے لوگوں کے اسے ناپسند کرنے سے بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔این ڈی اے 57سے52 پر آگیا، جب کہ اپوزیشن الائنس 17 سے 27 پر پہنچ گیا۔ تیسرے مرحلے میں آئین میں تبدیلی اور ریزرویشن کو ایشو بنایا گیا۔ یہاں این ڈی اے کی سیٹیں 70 سے گھٹ کر54 پررہ گئیں تو اپوزیشن الائنس کی سیٹیں 18سے بڑھ کر24پر پہنچ گئیں۔چوتھے مرحلے میں منی شنکر ایئر،سیم پترودا اور پاکستان پر بیانات کے باوجوداین ڈی اے 58سے55پر آئی تو اپوزیشن الائنس 3 سے بڑھ کر 22سیٹوں پر پہنچ گیا۔پانچویں مرحلے میں رام مندر پر بلڈوزر چلانے اورسی اے اے کے تحت پاکستان سے آئے ہندوؤں کو شہریت دینے کے داؤ اُلٹے پڑے۔ این ڈی اے 46سے 20پر آئی تو اپوزیشن الائنس 1سیٹ سے 23پر پہنچ گیا۔ چھٹویں مرحلے میں خواتین کے تحفظ اور مسلم ریزرویشن کے ایشوز کے دہراؤ نے این ڈی اے کودہلی میں تو فیض پہنچایا،لیکن وہ 47 سے 35 پر آگیا، جب کہ اپوزیشن ایلائنس2سے20سیٹوں پر جاپہنچا۔ ساتویں اور آخری مرحلے میںبدعنوانی کا ایشو گونجا،تو این ڈی اے 36 سے 18 سیٹوں پر آگیا، جب کہ اپوزیشن الائنس 9 سے 30پر پہنچ گیا۔موجودہ سرکار اپنا دورانیہ پورا کرتی ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، لیکن اس الیکشن میں رائے دہندگان کا بڑا طبقہ مذہبی جنون کے گرداب سے باہر نکلنے میں ضرور کامیاب رہا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS