عدالت کے فیصلے سے لوگ مایوس :مولانا ارشدمدنی

0

نئی دہلی :جمعیة علماءہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے سخت تشویش کا اظہارکیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید تھی کہ کوئی مثبت پیش رفت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت قانون کے نفاذ پر روک لگادیتی تو ملک بھرمیں اس قانون کے منظوری کے بعد خوف ودہشت کا جو ماحول قائم ہوا ہے، اس میں بڑی حدتک کمی آجاتی اور جگہ جگہ ہورہے مظاہرے بھی بڑی حدتک تھم جاتے، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک بھرمیں شدید احتجاج اور مظاہرے کے بعد بھی حکومت کہہ رہی ہے کہ اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس صورت میں ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کی امید یں اور آرزوئیں ملک کی سب سے بڑی عدالت سے ہی وابستہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سیاہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں ریکارڈ 144 عرضیاں داخل ہیں اوران سب میں اس قانون کو آئین مخالف قراردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ اس قانون سے آئین کے تمہید کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے، اس لئے اس پر پابندی لگنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ سرآنکھوں پر، لیکن اس سے ملک کے ان کروڑوں ہندو،مسلم ، سکھ اور عیسائی کو سخت مایوسی ہوئی ہے، جو پچھلے ایک ماہ سے سخت سردی ، ٹھٹھرن اور بارش میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر اس کالے قانون کے خلاف پرامن مگر مثالی احتجاج کررہے ہیں۔ 
 انہوں نے کہا کہ ان سب کے باوجود حکومت آمرانہ روش اختیارکرکے اس آئین مخالف قانون کو سب پر تھوپنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ 18دسمبرکو اسے جواب داخل کرنے کےلئے جو ایک ماہ کی مہلت عدالت نے دی تھی، اسے اس نے ضائع کردیا، جبکہ اسے آج مکمل حلف نامہ داخل کرنا چاہئے تھا۔ اس سے حکومت کی منشا کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ انہوں نے ایک بارپھر وضاحت کی کہ جمعیةعلماءہند کا شروع سے یہ مانناہے کہ جن مسائل کا حل سیاسی طورپر نہ نکلے، اس کے خلاف قانونی جدوجہد کا راستہ اپنانا چاہئے۔ کئی اہم معاملوں میں اس نے ایسا کیا ہے اور عدلیہ سے انصاف بھی ملا ہے۔ چنانچہ اس معاملہ میں بھی جمعیةعلماءہند نے وکیل آن ریکارڈ ارشادحنیف اور سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر راجیودھون کے مشورہ سے ایک رٹ پٹیشن شروع میں ہی داخل کی تھی۔ مولانامدنی نے کہا کہ جو لوگ اسے ہندومسلم کا مسئلہ سمجھتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں سچائی یہ ہے کہ یہ ملک کے آئین ودستورسے جڑاہواایک انتہائی اہم معاملہ ہے، البتہ بعض لوگوں کی جانب سے اسے مسلسل ہندومسلم بنانے کی دانستہ کوششیں ہورہی ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ اس کے خلاف ملک بھرمیں لوگ مذہب، ذات پات اور برادری سے اوپر اٹھ کر احتجاج کررہے ہیں گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتاہے کہ اس سیاہ قانون نے سب کو ایک دوسرے سے جوڑدیا ہے اور جولوگ باہمی اتحاداور یکجہتی کو نقصان پہنچانے کا خواب دیکھ رہے تھے، انہیں سخت مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جہاں جہاں شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرزپر مظاہرے ہورہے ہیں، ان میں ایک بڑی تعدادہمارے غیرمسلم بھائیوں کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 6سال کے دوران حکومت نے نفرت کی جودیوارمختلف جذباتی اور مذہبی ایشوزکو ہوادے کر ہندوو¿ں اور مسلمانوں کے درمیان منصوبہ بندطریقہ سے کھڑی کی تھی، ان مظاہروں نے اس دیوارکو پوری طرح مسمارکردیا ہے اور یہی ہماری اصل طاقت ہے۔ درحقیقت یہ ہندوستان کی طاقت ہے، جس کے آگے اقتدارکے نشہ میں چور انگریزوں نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ان احتجاج اور مظاہروں کو عام احتجاج یا مظاہرہ نہ سمجھاجائے، بلکہ یہ ایک نئے انقلاب کی آہٹ ہے اور مرکزی حکومت نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی کوشش کرے، ورنہ کل تک بہت دیر ہوسکتی ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS