لوگ سردی سے نہیں ڈرتے: انل جین

0

انل جین

نیا سال شروع ہوچکا ہے اور اس سے پہلے شروع ہوگئی کپکپا دینی والی سردی۔ اس وقت بھی ملک کے مختلف علاقوں میں سردلہر قہر برپا کررہی ہے، جس سے ہر سال کی طرح ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں کے مرنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ اب تک 150سے زیادہ لوگ سردی کی ٹھٹھرن سے موت کی نیند سو چکے ہیں۔ ویسے اس طرح کی خبریں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کہیں بھوک اور غذائی قلت سے ہونے والی اموات تو کہیں غریبی اور قرض کے بوجھ سے بے حال کسانوں اور چھوٹے کاروباریوں کی خودکشی کے جاری سلسلہ کے دوران ہر سال ہی سردی کی ٹھٹھرن، گرم لو کے تھپیڑوں اور بارش-سیلاب سے بھی لوگ مرتے ہی رہتے ہیں۔

موسم کی شدت کے سبب ہونے والی یہ اموات ہمارے اس ہندوستان کی برہنہ سچائیاں ہیں، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تیزی سے ترقی کررہا ہے اور جلد ہی دنیا کی معاشی سپرپاور بن جائے گا۔ یہ سچائیاں صرف ہماری حکومتوں کے ہوا-ہوائی پروگراموں اور پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت ہوجانے جیسے گلابی دعوؤں کا مذاق نہیں اڑاتیں، بلکہ نظام پر قابض لوگوں کی نالائقی اور بے حسی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔

ویسے، سردی ہمارے باقاعدہ موسمی سائیکل کا ہی حصہ ہے۔ کڑاکے کی سردی اس کا ہلکا سا انحراف ہے۔ سردی اور شدید سردی آخر میں ہمیں کئی طرح کے فائدے ہی پہنچاتی ہیں۔ سب سے بڑی بات ہے کہ کڑاکے کی سردی ہمیں یقین دلاتی ہے کہ گلوبل وارمنگ اتنی ملحقہ نہیں ہے، جتنا کہ اکثر ہم تسلیم کربیٹھتے ہیں۔ زیادہ تر ہندوستانی اس معنی میں خوش نصیب ہیں کہ انہیں موسم کے تغیرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ورنہ دنیا میں ایسے کم ہی علاقے ہیں، جہاں ہر موسم کا مزہ لیا جاسکے۔ ہر موسم اپنی شدید شکل میں بھی خوبصورت ہوتا ہے، بشرطیکہ اس کی مار سے لوگوں کو بچانے کے انتظامات ہوں۔ دنیا میں ممکنہ طور پر ہندوستان ہی ایسا واحد ملک ہے، جہاں ہر موسم کے انتہائی شدت اختیار کرنے پر لوگوں کے مرنے کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگ موسم کی شدت سے نہیں مرتے ہیں، وہ مرتے ہیں اپنی غریبی سے، وسائل کی کمی سے اور انتظامی نظام کی ناکامی یا لاپروائی کی وجہ سے۔ یوروپ کے ممالک میں حکومتیں موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے کے چاق چوبند انتظام کرتی ہیں، اس لیے وہاں لوگ ہر موسم کا طرح طرح سے لطف اُٹھاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی امیر طبقہ ایسا ہی کرتا ہے، جس کے پاس ہر موسم کی شدت کا سامنا کرنے اور اس کا لطف اٹھانے کے مناسب وسائل ہیں۔

ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں یوروپ جیسی ٹھنڈ نہیں پڑتی، لیکن ہمارے یہاں جب ہمالیائی سلسلہ کی پہاڑیوں پر گرنے والی برف سے میدانی علاقوں میں سردلہر چلتی ہے تو ملک کے مختلف علاقوں میں سردی کی ٹھٹھرن سے ہونے والی اموات کے اعدادوشمار آنے لگتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر پورے ہندوستان کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو ہر سال سردی سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ زیادہ تر اموات بڑے شہروں اور میٹروپولیٹن میں ہوتی ہیں۔ جو مرتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر بے گھر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کام کی تلاش میں دوردراز علاقوں سے بڑے شہروں یا میٹروپولیٹن میں جاتے ہیں، تاکہ محنت مزدوری کرکے اپنے کنبہ کے زندہ رہ سکنے لائق کچھ کماسکیں۔ ان میں کوئی سائیکل رکشہ چلاتے ہیں، کوئی ریستوران اور ڈھابوں میں کام کرتے ہیں تو کوئی کسی اور کام میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن چوں کہ ایسے لوگوں کے پاس رہنے کے لیے اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ہے، اس لیے کھلے آسمان کے نیچے رات گزارنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ گرمی یا دوسرے موسم میں تو کسی طرح ان کی راتیں کٹ جاتی ہیں، لیکن سڑک پرسردلہر میں ایک رات بھی محفوظ گزر جانے پر وہ بے حد راحت محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ موسم سرما میں ہونے والی کسی بیماری کی زد میں آجاتے ہیں تو ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے ہیں کہ اپنا علاج کراسکیں۔ سردی کے دنوں میں ایسے جان لیوا حالات کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے سامنے وسائل کی کمی ایک بے بسی ہے تو فلاحی اقدار پر چلنے کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کی کیا کوئی ذمہ داری بنتی ہے کہ نہیں؟

دراصل، شہری اور نیم شہری علاقوں میں موسم کی مار سے لوگوں کے مرنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہے شہری منصوبہ بندی میں سرکاری نظام کی غیردوراندیشی۔جب سے رہائشی کالونیوں کی آباکاری کے معاملہ میں ڈیولپمنٹ اتھارٹیز اور ہاؤسنگ بورڈز کی بجائے نجی بلڈرز اور کالونائزروں کا دخل بڑھا ہے، تب سے روز کما کر روز کھانے والوں اور بے گھر لوگوں کے لیے رہائشی منصوبے حاشیہ پر کھسکتے گئے ہیں۔ کروڑوں لوگ آج بھی فٹ پاتھوں، ریلوے اسٹیشنوں اور بس اڈوں پر یا ٹاٹ اور پلاسٹک وغیرہ سے بنی جھونپڑیوں میں رات گزارتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس توپہننے کے لیے گرم کپڑے یا اوڑھنے کے لیے رضائی-کمبل تو دور تاپنے کے لیے خشک لکڑیاں تک دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو موسم کی مار سے بچانے کے لیے عدالتیں ہر سال حکومتوں اور مقامی اداروں کو لتاڑتی رہتی ہیں، لیکن سرکاری نظام کی موٹی چمڑی پر ایسی لتاڑوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

سردلہر، سیلاب اور شدید گرمی جیسی قدرتی آفات کوئی نئے واقعات نہیں ہیں۔ یہ تو پہلے سے آتی رہی ہیں اور آگے بھی آتی رہیں گی، انہیں روکا نہیں جاسکتا۔ روکا جاسکتا ہے تو ان سے ہونے والی جان-مال کی تباہی کو، جو صرف سیاسی اور ایڈمنسٹریٹو مشینری کی ایماندارخوداعتمادی سے ہی ممکن ہے۔ فی الحال سردلہر اور اس سے ہونے والی اموات ہمیں بتارہی ہیں کہ جب موسم کی ہلکی سی شدت کا سامنا کرنے تک کی ہماری تیاری نہیں ہے، اور ہمارے نظام ناکارہ بنے ہوئے ہیں تو جب گلوبل وارمنگ جیسے چیلنجز ہمارے سامنے ہوں گے تو اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے؟

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS