مراق مرزا
یہ حقیقت اب پوری دنیا پر سورج کی روشنی کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا حل امریکہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے طریقے سے چاہتا ہے اور ہمیشہ سے اس کی پالیسی رہی ہے کہ جو کمزور ممالک امداد کے لیے اس کی جانب ہاتھ پھیلاتے ہیں، ان پر وہ مدد کے بہانے حاوی ہوکر انہیں فکری و نفسیاتی طور پر اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ پھر وہاں ایسی حکومت قائم کر دیتا ہے اور ایسا حکمراں مسند اقتدار پر بٹھادیتا ہے جو اس کے اشارے پر اس کے اپنے مفاد کے مطابق کام کرے، چنانچہ قریب 10 ماہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران متعدد مرتبہ اس نے جنگ روکنے اور امن قائم کرنے کی بات توکہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کو دل کھول کر ہتھیار بھی مہیا کرتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو بائیڈن کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوچکاہے اور ان کی کسی بھی بات کو اب دنیا سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ فوجی کارروائیوں میں جو ہزاروں بے قصور افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں، اس کا ذمہ دار بنیامن نیتن یاہو سے زیادہ ہتھیاروں کا ایکسپورٹرامریکہ ہے مگر یہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یاہو کو بری الزمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
وقت کی اچھی بات یہ ہے کہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ اسی لیے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چین نے ایک شاطرانہ سیاسی داؤ کھیلا ہے۔ سیاست قومی ہو یا عالمی کھلاڑی کو مہروں کی چالوں پر باز کی سی نظر رکھنی پڑتی ہے،کیونکہ ہار اور جیت کا انحصار چالوں پر ہوتاہے۔ چین کی اس پہل سے امریکہ اور اسرائیل دونوں کی طاغوتی سوچ کو جھٹکا لگاہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ حماس اور الفتح فلسطین کی دوحریف پارٹیاں ہیں جن کے سیاسی افکار و نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چین نے ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنے پاس ایک ہی ٹیبل پر آمنے سامنے بٹھا کر مصالحت کے ذریعے ان کے درمیان سمجھوتہ کرا دیا اور انہیں متحد ہوکر فلسطین میں امن کی بحالی کے لیے کوششیں کرنے کا مشورہ دیا۔ ایسا ہی ایک سمجھوتہ بیجنگ نے گزشتہ برس ایران اور سعودی عرب کے درمیان کرایاتھا۔ آگے بڑھنے سے قبل حماس اور الفتح کے بیک گراؤنڈ کو سمجھنا ضروری ہے۔ کب اور کیسے وجود میں آیاحماس؟ کہانی 1967 میں شروع ہوتی ہے جب اسرائیل کے جارحانہ رویے اور ظلم وجور کے خلاف شام، اردن اور مصر نے متحدہ طورپر جنگ کا آغاز کیا تھا۔ روس ان ممالک کا حمایتی تھا۔ جنگی ساز و سامان پہنچانے میں روس کی جانب سے تاخیر ہونے کے سبب ان مسلم ممالک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسرائیل نے فلسطین کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ یہ جنگ 6 دنوں تک جاری رہی تھی جس کے نتیجے میں مصر، شام اور اردن کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ 6 روزہ جنگ کے نام سے یہ واقعہ تاریخ کے صفحات پردرج ہے۔
وقت کا پہیہ اپنے نشیب وفراز کے ساتھ گھومتا رہا۔ پھر 1980کے بعد یہودیوں اورفلسطینی مجاہدین کے مابین خونیں جھڑپیں تیزہوگئیں جس کا انجام یہ ہواکہ یہودی غزہ پٹی چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ 1987 میں شیخ احمد یٰسین نے فلسطین اورمسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے حماس نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے ایک مسلح جماعت پہلے سے موجودتھی۔یہ یاسرعرفات کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) تھی جس کا جنم 1964 میں ہوا تھا۔ یاسرعرفات کے انتقال کے بعد پی ایل او بتدریج کمزورپڑنے لگی تھی۔ جنگ سے کوئی حل نہیں نکل پارہاتھا، لہٰذا امن بحالی کے مقصد سے پی ایل او کے لیڈران نے 1993 میں اسرائیل کو اپنی زمین پرایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا جبکہ حماس نے طے کیا کہ وہ لڑائی جاری رکھے گا اور تب تک لڑے گاجب تک فلسطین اور بیت المقدس کو آزادی نہیں مل جاتی۔ 2006 کے انتخابات کے بعد فلسطین دو سیاسی نظریات کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ الیکشن جیت کر حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ غزہ پٹی کے حکمراں بنے جبکہ مغربی کنارہ پر محمود عباس کی پارٹی الفتح کی حکومت قائم ہوئی۔ اب چین کی مصالحت سے حماس اور الفتح نے ہاتھ توملا لیاہے لیکن کیا اس اتحاد سے فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ جنگ ختم ہو جائے گی؟ یافلسطین کی آزادی کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوگا؟ اس اتحاد پر مغربی میڈیا کی آرا مختلف ہیں۔ کچھ صحافیوں کا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے جبکہ جنگی حالات کو سمجھنے والے کچھ ماہرین کو اس سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ علاوہ بریں کچھ سیاسی تبصرہ نگار کا یہ بھی ماننا ہے کہ حماس اور الفتح فلسطین کی زمین پر اسرائیل کو قبول کر بھی لیں تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، نیتن یاہو کا ایجنڈا کچھ اور ہی ہے۔ وہ پورے فلسطین پر قبضہ جمانے پر آمادہ ہیں۔ کیا ان کا یہ خواب پوراہو جائے گا؟اس کاجواب فی الحال وقت کے شکم میں ہے۔
چین نے حماس اور الفتح کو ایک ٹیبل پر بٹھاکر غزہ جنگ کو ایک نیا رخ ضرور دے دیا ہے مگراس سیاسی داؤ کے پس پردہ اس کا اپناایجنڈا ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی موجودگی کو کمزور کرکے اپنی طاقت اور برتری کا مظاہرہ کررہاہے لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین کا سیاسی نظریہ استعماریت پسند ہے۔ جس زمین پر وہ قدم رکھتا ہے وہاں کے حکمراں اور نظام کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ اس کھیل میں چین کو مہارت حاصل ہے اور اب جبکہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تہران میں اپنی رہائش گاہ پر ہوئے حملے میں مارے جاچکے ہیں تو یہ کہنا مشکل ہے کہ چین نے اس خطے میں امن بحالی کی جو کوشش کی ہے، اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکل پائے گا۔ ہدف اسماعیل ہنیہ تھے مگر حملہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ہوا ہے۔ کیا ایران یہ برداشت کرے گا اور چپ بیٹھا رہے گا؟ اس پر ایران کا خطرناک ردعمل ہو سکتا ہے اور وہ اس حملے کا منہ توڑجواب دے سکتا ہے۔ نیتن یاہو فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے ارادے سے جنگ لڑ رہے ہیں جس کا انجام بہرحال خطرناک اور عبرت ناک ہوگا۔
اس وقت حالات ایسے ہیں کہ اسرائیل کوہ آتش فشاں سے گھرا ہوا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے چکرویوہ میں پھنس گیا ہے۔ اسے اپنی بقا کے لیے کئی محاذ پر لڑنا ہوگا، ورنہ اس کا وجود تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی طاقتیں اپنے مفادات نیزدنیا میں اپنی برتری کا ڈنکا بجانے کے جنون سے خود کو الگ کرکے مسئلۂ فلسطین کا دیرپا حل تلاش کریں، ورنہ تیسری عالمی جنگ کے بادل سرپرمنڈلارہے ہیں۔ جنگ کا لاوا اگر فلسطین کی سرحدوں سے باہر نکل کر پھیل گیا تو دنیا کے سامنے ایک بے حد ہولناک تباہی کا منظر ہوگا۔ ایٹم بموں کے دھماکوں سے زمین دہل اٹھے گی اور انسانیت لہولہان ہوکر اپنی شناخت کھوبیٹھے گی۔ یہ بات چین، روس،امریکہ کے علاوہ دیگر بڑی طاقتیں بھی جانتی ہیں۔n