پارلیمنٹ جو کسی بھی جمہوری نظام کی روح اور عوامی اعتماد کا مظہر ہوتی ہے‘ان دنوں سیاسی ہنگامے اور تنازعات کی زد میں ہے۔ رواں سرمائی اجلاس میں پیش آنے والے واقعات نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہماری جمہوری روایت واقعی عوامی مسائل کے حل کی بنیاد پر قائم ہے یا پھر یہ محض سیاسی مفادات کے تصادم کا میدان بن چکی ہے؟
رواں اجلاس کے دوران اڈانی گروپ پر رشوت ستانی اور دھوکہ دہی کے الزامات ایوان کی بحث کا مرکزی موضوع بنے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ حکومت ایک مخصوص صنعت کار کے مفادات کی حفاظت کے لیے ایوان کی کارروائی روک رہی ہے۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں نے واک آؤٹ‘پلے کارڈز‘اور احتجاجی مظاہروں کا سہارا لیا‘جب کہ انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے پارلیمنٹ کمپلیکس کے باہر مظاہرے کئے اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔ تاہم‘سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس کی غیر موجودگی نے اپوزیشن کے اندرونی اختلافات کو بھی نمایاں کر دیا‘جو صرف پارلیمنٹ کی فضا کو مزید گندا کر رہے ہیں اور عوامی مسائل کو نظرانداز کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
حکومت نے اڈانی گروپ کے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترقیاتی پالیسیوں کو متاثر کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ اپوزیشن نے حکومت پر جمہوری اصولوں کو پامال کرنے اور عوام کی آواز کو دبانے کا الزام عائد کیا‘جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘سیاست دانوں کی ترجیحات مختلف ہو جاتی ہیں‘اور عوام اپنے حقیقی مسائل کے حل سے محروم ہو جاتے ہیں۔
جہاں ایک طرف پارلیمنٹ میں اڈانی گروپ پر بحث ہو رہی تھی‘وہیں دوسری طرف عوامی مسائل جیسے سنبھل کے پرتشدد واقعات زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ سنبھل جیسے پرامن علاقے میں ہونے والے سانحات نے مقامی افراد میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی اور اپوزیشن کو حکومت کی حکمت عملی پر سوال اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ جب عوام کے گھروں میں خوف کا ماحول ہو اور معصوموں کی جانوں کا اتنا زیادہ نقصان ہو‘تو وہ کس سے انصاف کی امید کریں؟ یہی سوال عوام کو کچوکے لگا رہا ہے۔
اکھلیش یادو نے ان واقعات کو حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے بنیادی حقوق اور آزادیوں پر حملہ ہے۔ یہ سانحات حکومتی اداروں کی آئینی ذمہ داریوں سے غفلت کا نتیجہ ہیں۔ آج پارلیمنٹ میںاپنی تقریر کے دوران اکھلیش یادونے کہاکہ سنبھل میں پیش آنے والا واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ پولیس اور انتظامیہ تشدد کیلئے ذمہ دار ہیں‘جن کی غفلت کے باعث پانچ معصوم جانیں ضائع ہو گئیں۔ ان اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہئے ۔اکھلیش نے مسجد کے سروے کے عدالتی حکم کو عجلت قرار دیتے ہوئے سوال بھی اٹھایا۔انہوں نے کہاکہ 19نومبر کو ایک سروے کیا گیا تھا اور رپورٹ عدالت کو دی جانی تھی‘لیکن 24 نومبر کو دوبارہ سروے کا حکم دیا گیا‘جس کے دوران حالات بگڑ گئے۔ سرکل آفیسر نے لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور لاٹھی چارج کیا‘پولیس نے فائرنگ کی۔ نتیجے میں درجنوں زخمی ہوئے اور پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
سنبھل کے متاثرین کے اہل خانہ کی فریادوں نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کی پرامن شناخت کو دانستہ طور پر خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ ان کی زندگی کا ایک سنگین مرحلہ ہے‘جہاں انصاف کی پکار پر حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہاہے۔ متاثرین نے حکومت سے انصاف کی اپیل کی اور مطالبہ کیا کہ ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی مسلسل تاریخی عمارتوں کی کھدائی اور ایسے اقدامات کی بات کر رہی ہے‘جو ملک کے بھائی چارے کو ختم کر دیں گے۔ بی جے پی آئین پر یقین نہیں رکھتی اور سماجی ہم آہنگی کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ان کے بقول‘یہ سیاسی حربے صرف عوام کے اعتماد کو کمزور کر رہے ہیں اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
یہ دونوں معاملات‘اڈانی تنازع اور سنبھل کے واقعات‘نہ صرف سیاسی مباحث کا حصہ بنے بلکہ انہوں نے عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پارلیمنٹ‘جو عوامی مسائل کے حل کا مرکز ہونا چاہئے تھی‘اب سیاسی تنازعات اور مفادات کی جنگ کا میدان بن چکی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی بہبود پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ عوامی مسائل پر تعمیری بحث و مباحثے کا آغاز ہونا چاہئے تاکہ نہ صرف سنبھل جیسے سانحات کا تدارک ممکن ہو‘بلکہ ملک کی ترقی کی راہ بھی ہموار کی جا سکے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ترقی اور امن کا سفر صرف اسی صورت میںممکن ہے جب ہر شہری خود کو محفوظ اور انصاف کے قریب محسوس کرے۔