عبدالسلام عاصم
ہندوستانی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح، موافقین کی شرکت، مخالفین کے بائیکاٹ، مدعوئین اور غیر مدعوئین کے تذکروں کے حوالے سے میڈیا میں اب تک جو خبریں اور نظریں سامنے آئی ہیں، اُن میں کہیں خوشی، کہیں غم کا بظاہر خاصا احاطہ کیا گیا ہے۔ بعض حلقوں نے خوشی کے ساتھ اس بات کا دُکھ بھی ظاہر کیا ہے کہ قوم کی تقدیر کی نئی فیصلہ گاہ اپنے تعمیری منصوبے، تعمیر اور افتتاح کے مراحل سے غیر متنازع طور پر نہیں گزر پائی۔ دوسری طرف بیشتر خبر نگار بھی اِس نزاع پر اپنی پسند اور ناپسند کو قارئین،سامعین اور ناظرین کے دل و دماغ میں ٹھونسنے کی کوشش میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
قومی سیاست میں تشکیل اور ردتشکیل کے رُخ پر اِس تعمیراتی انقلابی تبدیلی پر جمہوریت میں سب کا ہم خیال ہونا ویسے بھی قطعی ضروری نہیں۔ ایسے کسی معاشرے کو ہرگز زندہ اور صحت مند نہیں کہا جا سکتا جس میں اختلاف نہ ہو۔ جامد سوچ کے ساتھ کسی سماج کو ہمہ گیر نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ اختلاف کو کبھی ایسا رنگ نہیں دینا چاہیے جو کسی طور باجواز نظر نہ آئے۔ بدقسمتی سے ادھر کچھ دہائیوں سے ہمارا سماجی تانا بانا اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ معمولی ٹھیس سے بھی بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔ ایسے میں سماجی ذمہ داری کے لحاظ سے میڈیا کا مثبت کردار بہت ضروری ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ترقی پذیر دنیا کے ایک بڑے حصے میں یہ کردار اب مثبت نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بگڑی بات بنتی کم ہے اور کچھ باتیں تو بنتے بنتے بگڑ جاتی ہیں۔
نئی پارلیمانی عمارت کے حوالے سے بھی قوم کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک حلقے کی جہاں یک رنگ طبیعت میں اچھال آیا ہوا ہے، وہیں دوسرے کئی حلقوں کو ایسا لگتا ہے کہ اِس تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ غالب کے اِس خیال سے اتفاق کا بہرحال یہ مطلب نہیں کہ کسی نئی تعمیر کی سرے سے بات ہی نہ کی جائے اور جینے کی جو گنجائش میسرہے بس اُسی پر منحصر رہا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کسی تعمیر سے اتفاق نہیں بھی ہے اور اس میں خرابی کی صورت نظر آ رہی ہے تب بھی اسے اس یقین کے ساتھ قبول کیا جائے کہ:
تخریب میں تعمیر کے پہلو ہیں نہاں اور
مٹتا ہے جہاں ایک تو بنتا ہے جہاں اور
بہرحال آزاد ہندوستان کی تاریخ کے اپنی نوعیت کے اس پہلے واقعہ کی ایک سے زیادہ جھلکیاں یہ اشارہ ضرور دیتی ہیں کہ ابھی ہمیں ذہنی بلوغت کا ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔ معاشرتی سطح پر جب تک کسی ایک حلقے کا اطمینان دوسرے حلقوں کی فکر مندی سے مشروط رہے گا، ہماری اجتماعی قومی سوچ اقوام عالم کی وہ رہنمائی نہیں کر سکے گی جس کا خواب کل کے حکمرانوں نے بھی اپنے طور پر دیکھا تھا اور موجودہ مقتدرین بھی دیکھنے کے دعویدار ہیں۔
بر صغیر کی سیاست کے 75 سالہ سفرکے موجودہ موڑ پر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے تقسیم در تقسیم سے گزرنے والے متحدہ ہندوستان کے تینوں حصوں میں سیاسی تاریخ کو از سر نو مرتب کیا جارہا ہے۔ ایسا کرنے کے سب کے ارادے بھلے الگ ہوں لیکن اس عمل میں وہ حقائق سامنے آرہے ہیں جن سے نام نہاد سیکولر سیاست دانوں نے سب کچھ جانتے ہوئے کبھی اتفاق نہیں کیا تھا اور آج بھی وہ ایک سے زیادہ سچائیوں کے ایسے منکر ہیں جیسے ان کا حالات کی تبدیلی میں کبھی کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ باوجودیکہ وطن عزیز میں ماضی سے نجات کے نام پر جس طرح معکوس رخ پر تبدیلوں کو انقلاب کا نام دیا جا رہا ہے، اسے سمجھنے اور نہ سمجھنے والوں کو سمجھانے کیلئے گزرے ہوئے کل کے کچھ اوراق کو نسل نو کے سامنے لانا ضروری ہے۔
تازہ ایپی سوڈ کی بیشتر تصاویر جوکسی کیپشن کے بغیر میڈیا خصوصاً سوشل میڈیامیں گردش کر رہی ہیں، اُن پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ یہ ساکت و متحرک تصاویر وہ سب کچھ بیان کر رہی ہیں جو قومی سیاست کے سفر کو سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ نئی پارلیمانی عمارت کی تعمیر، اس کے رنگ روپ، داخلی اور بیرونی خط و خال میں کسی حیرانی کی مطلق گنجائش نہیں۔ البتہ یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ سابقہ صدی کے وسط میں متحدہ ہندوستان میں رہنے والے دونوں فرقوں کے لال بجھکڑ وں کے ہاتھوں مادر وطن کی تقسیم کا عمل کسی متبادل کے بغیر صرف رد تشکیل تک محدود تھا۔
یہ ایک ایسا سچ ہے جسے چھپانے میں اُس وقت کے سیاسی خطاکار بری طرح ناکام رہے۔ نتیجے میں دوقومی نظریے کی بدترین ناکامی دو دہائیوں میں ہی 1971 میں ایکدم سے سامنے آ گئی۔ کہتے ہیں جب شعور پر انا حاوی ہوجائے تو ازالے کی کوشش بھی مزید خسارے کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ وہی یہاں بھی ہوا۔ آزادی کے بعد کے 25 برسوں کے اندر اگر منقسم گھروں کی ذمہ داری سنبھالنے والوں نے اپنی اپنی فاش غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ہند- پاک وفاق یا نیم وفاق کے قیام کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو وہ لوگ جو تقسیم ہند کے سرگرم ذمہ داران تھے، مرحلہ وار کنارے لگتے لگتے راکھ اورخاک کا حصہ بن گئے ہوتے اور اُن کی نئی نسلیں نئے ماحول میں ضم ہو گئی ہوتیں۔ بالفرض ایسا ہوا ہوتا تو جس طرح برطانیہ، فرانس اور جرمنی براعظم یوروپ کی نمایاں طور پر نمائندگی کرتے ہیں، اُسی طرح آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش ایشیا کی نمائندگی کر رہے ہوتے۔
ایسا نہ ہونے کی جڑ میں جن خرابیوں کی پرورش شامل ہے۔ اس میں کشمیر کو شہ رگ بتانے اور اسی کو رات دن لہولہان کرنے والے ہمسائے کا کردار اور اُس سے حکمت کے بجائے ردعمل کے ذریعہ نمٹنے کی ہماری روش فرقہ وارانہ منافرت کے زخم کو ناسور بنانے میں مسلسل اپنا کردار اداکرتی رہی۔ سابق مشرقی پاکستان کے پڑھے لکھے بنگالیوں نے تقسیم ہند کے زخم کو ہرا رکھ کر سیاسی عزائم کا کھیل کھیلنے سے کبھی اتفاق نہیں کیا تھا۔ ان کے اس اختلاف کو بھی اقتدار کے نشے میں چور مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے برداشت نہیں کیا۔ اس کے بعد اقتدار پر قابض فوج نے جو چالیں اپنائیں اُن کا حشر کسی سے پوشیدہ نہیں۔
امید کی جارہی تھی کہ 1971 کے بعد باقی ماندہ پاکستان ہوش کے ناخن لے گا اور فرقہ وارانہ خطوط پر سیاسی اور سماجی تقسیم کو انسانی رشتوں میں حائل نہیں ہونے دے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ مذہبی شدت پسندی کی وہ انتہا کی گئی کہ ہندوستان میں بھی اِس کا راست ردعمل مرتب ہونا شروع ہوگیا۔ رفتہ رفتہ دونوں ملکوں میں اکثریت کیلئے مذہبی انتہا پسندیاں ہی راہِ نجات بن گئیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں اقلیتیں از خود کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کرتیں جو اکثریت کیلئے تشویشناک ہو۔ یہ کام ہمیشہ غیر ذمہ دارحکومتیں اپنے اقتدار رُخی مفاد کیلئے کرتی اور کرواتی آئی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمراں بھی بس اپنے خواب پورے کرنے میں سرگرداں ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں کہ ہر خواب کی تکمیل حقیقت نہیں ہوتی۔ باوجود یکہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کو (جہاں حسبِ سابق قوم کی تقدیر کا ہی فیصلہ کیا جائے گا)، انسانی رشتوں کے احترام کا محور دکھانے پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا جانے انجانے میں اسے اس طرح سامنے لایا گیا ہے کہ بظاہر ایک لیکن بباطن خانوں میں بٹی قوم جب اسے دیکھے تو کوئی خود کو مقتدر اور کوئی خود کو منحصر سمجھے۔ پاکستان میں دو درجاتی انتخابی نظام کے تحت اقلیتوں کو اسی طرح مقتدر کے بجائے منحصر ہونے کے احساس کے ساتھ جینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔برسوں پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ’’بر صغیر وہ متبرک خطہ ہے، جہاں مستقبل کی تدفین، حال کی تغلیظ اورماضی کی تزئین کا تجربہ ہمیشہ کامیاب رہا ہے‘‘۔
ہندوستان بہر حال اب اور ہرگز ایسے کسی منظر نامے کا متحمل نہیں جس میں اکثریت اور اقلیت کو ایک دوسرے کے اشتراک کے ساتھ ہندوستان کی جمہوری روایات اور آئینی اقدار کے تحفظ اور فروغ میں سرگرم عمل دکھانے کے بجائے کسی بھی رُخ سے بالترتیب مقتدر اور منحصر دکھایا جائے۔ پارلیمنٹ کی عمارت انصاف کا وہ قلعہ ہے جسے جمہوریت میں انسانی رشتوں کے احترام کے محور کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی حیثیت کسی معبد کی ہرگز نہیں۔ معبد سب کے الگ ہوتے ہیں اورمادر وطن میں مندر، مسجد، کلیسہ، کنیسہ وغیرہ کی مطلق قلت نہیں بلکہ اس قدر بہتات ہے کہ اُن کے مقابلے میں بے گھروں کے رین بسیروں کی انتہائی کمی پائی جاتی ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]