ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
عیسائیت دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پھیلے ہوئے مذاہب میں سے ایک ہے جس کے دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ پیروکارو متبعین ہیں۔اس کی ابتدا دو ہزار سال قبل عیسیٰؑ مسیح کی تعلیمات کی بنیاد پر ہوئی تھی جن کو عیسائی حضرات نعوذ باللہ ابن اللہ اور مسیحا مانتے ہیں۔ یہ مذہب بائبل، خاص طور پر نئے عہد نامہ میں پائی جانے والی تعلیمات کے مطابق محبت، ہمدردی،عفو در گزر اور اخلاقی زندگی گزارنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ عیسائیت کے بنیادی اصول میں سے ایک خاندان کا احترام ہے، خاص طور پر اپنے والدین کی عزت اور خدمت کرنا اس مذہب کی اہم ترین ضرورت قرار دیا گیا ہے، اسے نہ صرف اخلاقی فرض تصور کیا جاتا ہے بلکہ خدا کا حکم بھی سمجھا جاتا ہے۔
عیسائیت میں والدین کی عزت اور احترام کی اہمیت عہد نامہ جدید کی تعلیمات و ہدایات میں واضح طور پر درج ہیں جو والدین کی خدمت اور عزت کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں جن سے بائبل کے دوسرے حصے عہد نامہ قدیم میں پائی جانے والی اقدار کو بھی تقویت ملتی ہے۔عیسائیت کی مرکزی تعلیمات میں سے ایک جس پر خود عیسیٰؑ مسیح نے روشنی ڈالی ہے بچوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کریں خاص طور پر بڑھاپے میں،بائبل کے مطابق عیسیٰؑ مسیح نے فریسیوں کو مذہبی فریضے کی آڑ میں اپنے والدین کو نظر انداز کرنے پر خبردار کیا تھا اور آپ نے نشاندہی کی تھی کہ والدین کی عزت کرنے کے خدا کے حکم کو انسانی روایات یا تشریحات کے ذریعے رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
افسیوں کے نام خط میں بھی والدین کی عزت کرنے کے حکم کی تاکید کرتے ہوئے دہرایا ہے کہ ’’ وعدہ کے ساتھ پہلا حکم‘‘ہے۔ یعنی وہ بتاتا ہے کہ اپنے والدین کی عزت کرنے سے بچے لمبی عمر ،تندرستی اور خدا کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں۔ یہ حکم نہ صرف اس فرض کی روحانی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ والدین کی خدمت کا براہ راست تعلق ذاتی اور سماجی ہم آہنگی سے ہے۔ یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ والدین کی خدمت اور ان کا احترام و عزت کرنا صرف ایک قانونی فریضہ نہیں ہے بلکہ خدا کو خوش کرنے والی اور زندگی گزارنے کا ایک لازمی حصہ ہے۔
پولس رسول تیمتھیس اول باب آٹھ آیت پانچ میں ایک خط میں اپنے خاندان کو نظر انداز کرنے کے سنگین نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’جو شخص اپنے رشتہ داروں اور خاص طور پر اپنے گھر والوں کی حفاظت نہیں کرتا اس نے ایمان کا انکار کیا اور وہ اس سے بھی بدتر ہے۔ پولس کے خط کا یہ حصہ اس فریضہ کی سنجیدگی کو واضح کرتا ہے کہ اولاد کو اپنے والدین کی دیکھ بھال کرنا ہے اور ایسا کرنے میں ناکامی کو عیسائی اقدار کے انکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور والدین کی خدمت کو کسی شخص کے عقیدے کے ساتھ وابستگی کی عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور یہ مسیحی زندگی کی برادری اور خاندان پر مبنی فطرت کو تقویت دیتا ہے۔
والدین کی خدمت کے تعلق سے عہد نامہ جدید کی تعلیمات اطاعت و فرمانبرداری سے بالاتر ہیں، ان میں محبت، دیکھ بھال اور مدد فراہم کرنے کی گہری روحانی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اس فرض کو مسیح کی محبت کو زندہ کرنے کے طریقے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس نے بے لوثی اور ہمدردی کو مسیحی رویے کے بنیادی اصولوں کے طور پر سکھایا اور بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنا شکرگزاری، احترام، اور خدا کی مرضی کی فرمانبرداری کا اظہار قرار دیا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ اور انفرادیت پسند معاشرے میں خاندانی نگہداشت کی روایتی اقدار خاص طور پر بوڑھے والدین کے لیے آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔والدین کے ساتھ بدسلوکی اور ان کو گھر بدر کرنا عام ہو گیا ہے خاص کر ان علاقوں اور معاشروں میں جہاں آزادی اور ذاتی کامیابی پر توجہ اکثر خاندانی ذمہ داریوں کو زیر کر دیتی ہے۔ یہ تبدیلی بوڑھے والدین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں ظاہر ہوتی ہے جنہیں اولڈ ایج ہومز میں رکھنا یا مناسب دیکھ بھال اور مدد کے بغیر چھوڑ دینا ایک روایت بن گئی ہے۔ اگرچہ یہ ادارے جسمانی نگہداشت تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن جذباتی اور روحانی ضرورت جو فطری چیز ہوتی ہے اس سے خالی ہوتے ہیں یہ صورت حال خاص طور پر یوروپ اور امریکہ جیسے معاشروں میں تشویشناک ہے جہاں والدین کو دیکھ بھال کی سہولیات میں رکھنے کا رواج زیادہ عام ہو گیا ہے۔
والدین کے ساتھ بدسلوکی جس میں غفلت، بے عزتی، اور ایسے اداروں میں رکھنا ان مسیحی ہدایات اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے جو اپنے والدین کی عزت اور دیکھ بھال پر زور دیتی ہے کہ اولاد اپنی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں مصروف رہتے ہوئے اپنے بوڑھے والدین کو وہ احترام ،خیال ،محبت اور توجہ دینے میں ناکام رہتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ زندگی کا دبائو، گھریلو جھگڑے اور آپسی اختلاف اکثر ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں جہاں بزرگوں کو خاندان کے افراد کے طور پر احترام اور دیکھ بھال کے مستحق ہونے کی بجائے ایک بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ والدین کی خدمت میں یہ غفلت نہ صرف جذباتی تکلیف کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ عیسائیت کی بنیادی اقدار کے بھی خلاف ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ والدین کی خدمت اور عزت کرنا ایک مقدس فریضہ ہے۔ یہ رواج مغربی معاشروں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں آزادی کی روایت وثقافت کے سبب خاندانی بندھن دن بدن کھوکھلا اورکمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ عیسائی سیاق و سباق میں یہ رجحان پریشان کن ہے کیونکہ یہ والدین کی عزت کرنے اور بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال کرنے کے مسیحی حکم سے انحراف کا اشارہ دیتا ہے۔ یہ نا مناسب عمل نہ صرف سماجی ناکامی کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ روحانی ناکامی کی بھی وجہ ہے۔
اس طرح کی کوتاہی کے نتائج بہت پریشان کن اور تکلیف دہ ہوتے ہیں نہ صرف ان والدین کے لیے جو تنہائی اور گھر سے نکالے جانے کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کے لیے بھی جو خود کو اپنی خاندانی اور مذہبی ذمہ داریوں سے دور پاتے ہیں۔ مسیحی ہدایات سکھاتی ہیں کہ والدین کی خدمت کرنے سے برکت ملتی ہے اور خاندانی اتحاد مضبوط ہوتا ہے۔ جب ان اقدار کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس سے ایک جذباتی اور سماجی خلا پیدا ہوتا ہے جو افراد اور برادری دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ والدین کو چھوڑنے سے گھر اور معاشرے کو گہری دانشمندی اور جذباتی تعلق کو کھونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جو بزرگوں کی دیکھ بھال سے حاصل ہوتا ہے جس سے خاندانی اتحاد کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
عیسائیت میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کو صرف ایک فرض کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے طریقے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ تیمتھیس اول میں ’ ’ لیکن اگر بیوہ کے بچے یا پوتے ہیں تو انہیں پہلے اپنی راستبازی کو ماننا سیکھنا چاہیے، یعنی اپنے خاندانوں کی کفالت کرنا اور اس طرح اپنے والدین کی کفالت کرنا۔ اور دادا دادی کے قرضے ادا کرنا کیونکہ یہ خدا کو خوش کرتا ہے‘‘۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ والدین کا خیال رکھنا خاص طور پر بڑھاپے میں مسیحی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا ایک لازمی پہلو ہے۔
افسیوں کے نام خط میں ہے ’’ بچو، خداوند میں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرو کیونکہ یہ درست ہے، اپنی ماں اور باپ کی عزت کرو یہ پہلا حکم ہے اس کے ساتھ ایک وعدہ بھی ہے یہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے ساتھ خیریت ہے اور آپ زمین پر لمبی عمر پا سکتے ہیں ‘‘۔ اس میں پولس بچوں کے اپنے والدین کے فرمانبردار اور ان کا احترام کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور یہ حکم اطاعت کرنے والوں کے لیے برکتوں کا وعدہ کرتا ہے۔
آج کی ترقی یافتہ ،تیز رفتار اور انفرادیت پسند دنیا میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عیسائی جدید زندگی کے دبائو میں اپنے والدین کا خیال رکھنے کی اقدار کو نظر انداز کرکے مسیحی تعلیمات کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں، آج کے عیسائی والدین کو دیکھ بھال والے اداروں میں بھیج کر خود کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم مسیحی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اولڈ ایج ہومز جیسے ادارے ضروری خدمات تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن اولاد اور خاندان کے افراد کی طرف سے جو جذباتی اور روحانی دیکھ بھال، عزت و احترام ملتا ہے یہ ادارے وہ روحانی سکون اور خوشی نہیں دے سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر عیسائیت کی تعلیمات والدین کی خدمت اور احترام پر زور دیتی ہیں اسے ایمان کا بنیادی حصہ بناتی ہیں۔ تاہم والدین کو اولڈ ایج ہوم میں رکھنے کا جدید سماجی رجحان خاص طور پر یوروپ اور امریکہ جیسے خطوں میں ان اقدار سے انحراف کو ظاہر کرتا ہے۔ عیسائیت اولاد سے اپنے والدین کو جذباتی اور جسمانی طور پر مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور بڑھاپے میں ان سے محبت اور احترام کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔ مسیحی تعلیمات اس تعلق سے واضح رہنمائی فراہم کرتی ہے اور عیسائی پیروکار و متبعین کو یاد دلاتی ہیں کہ اپنے والدین کی خدمت کرنا ان کے ایمان اور خدا کے احکام کی اطاعت کا عکاس ہے۔
[email protected]
عیسائیت میں والدین کی خدمت اور تصور احترام : ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS