پنکج چترویدی
نہ کوئی اسٹیج، نہ مہمان، نہ مالا یا استقبال- گاؤں کے کسی مندر میں، قصبے کے کسی چبوترے پر یا کسی کے گھر کے آنگن میں یا پھر کھلے میدان میں- کبھی بیس تو کبھی 200، کبھی اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں۔ رگھوپتی راگھو راجارام- کے گانے سے مجلس شروع ہوتی ہے اور پھر بحث کھیتی کے بحران، غریبی، مہنگائی، غصے کی پٹری پر اتر آتی ہے۔ ان مجلسوں کو نام دیا گیا ہے-گاندھی چوپال۔ اس میں شامل لوگ خلیج کی سفید ٹوپیاں ضرور لگاتے ہیں۔ گاندھی کی خود انحصاری کا اصول کیا تھا اور آج بھی وہ کیوں قابل قبول ہے؟ خود روزگار یا کاٹیج انڈسٹری کیسے شروع کریں؟ تعلیم کیوں ضروری ہے، چند لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی زیادہ تر دولت آجانے کے کیا نقصانات ہیں؟ اسی طرح کے سوالات اور جوابات ہوتے ہیں اور مرکز ہوتا ہے کہ مہاتماگاندھی آج کے مشکل حالات میں گاؤں-سوراج کے ساتھ کیسے ضروری ہیں؟
گزشتہ 2 اکتوبر کو مدھیہ پردیش میں گاوؤں میں گاندھی بحث کا یہ طریقہ لوگوں کو بہت پسند آ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا تصور کرنے والے مصنف اور سماجی کارکنان بھوپیندر گپ اگم، گانگریس سے وابستہ ہیں اور گاندھی چوپال کے انعقاد میں سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ اس طرح پالیسی بنانے سے لے کر عمل آوری تک راست شامل ہیں، لیکن یہ نظم و ضبط برقرار رکھنا کوئی کم نہیں ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں کسی لیڈر یا سیاسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت میں تقاریر، نعرے، تعریف وغیرہ نہیں ہوتی- صرف اور صرف گاندھی کی باتیں ہیں۔ اس میں بھجن، ثقافتی پروگرام، نکڑناٹک، حب الوطنی و جدوجہد آزادی سے متعلق مختصر فلموں کی نمائش، کانگریس کی قیادت میںہوئی جدوجہد آزادی کی تاریخ پر بحث، موجودہ سیاسی صورتحال، زراعت، تعلیم، صحت، پینے کا پانی، سماجی برائیوں کو ختم کرنے سمیت دیگر موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر عام لوگوں سے بات کی جاتی ہے۔ کئی بار مندر کا پرساد تقسیم کیا جاتا ہے تو کبھی کوئی گاؤں والا چائے پلادیتا ہے۔ کچھ جگہوں پر پورے گاؤں کی تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگوں نے مل کر کھانا بھی کھایا-کہیں گکریاں تو کہیں پوڑی۔
2 اکتوبر 2022 کو بھوپال کے قریب مغلیہ چھاپ کے بمہوری سے جب یہ گاندھی چوپال شروع کی گئی تو پتہ چلا کہ اس گاؤں میں تو بجلی ہی نہیں ہے، ایم ایل اے پی سی شرما کے فنڈ سے کھمبے لگے اور وہاں بجلی جگمگا گئی۔ پہلی بار گاؤں والوں نے بھی محسوس کیا کہ گاندھی بابا کے ذریعے ان کے مطالبات بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ عموماً دیہات میں چوپال کے بعد سماجی کارکن بستی کا چکر لگاتے ہیں، جو لوگ چوپال میں نہیں آئے، ان سے ملتے ہیں، گاؤں محلہ کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے حل کے لیے لکھاپڑھی بھی۔ اس کا اثر بھی نظر آرہا ہے- سنگرولی میں چوپال سے اطلاع ملی کہ وہاں چھ ماہ سے راشن نہیں تقسیم ہوتا اور ایک ساتھ دستخط کروا کر محض ایک ماہ کا راشن دیا گیا۔ کچھ جگہوں سے معلوم ہوا کہ وہاں اب گندم نہیں دیا جا رہا، صرف چاول دے رہے ہیں- وہ بھی غیر معیاری۔
مدھیہ پردیش میں ابھی تک 17 ہزار گاندھی چوپال لگ چکی ہیں اور ان میں کئی لاکھ لوگ شامل ہوچکے ہیں۔ کچھ لوگ تو اتنے دیوانے ہیں کہ ان کی کار میں گاندھی بابا کی ایک تصویر، ایک دری اور ڈھولک رہتے ہیں، راستے میں جہاں دو-پانچ لوگ نظر آئے، وہ رگھوپتی راگھو گانا شروع کر دیتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک آنے پر وہ گاندھی کے قصے، کہانی، گاندھی کی آج ضرورت وغیرہ پر بات کرتے ہیں۔ کمل ناتھ خود اپنے علاقے میں کئی چوپالوں میں گئے ہیں۔ ریاست کے سب سے کم عمر ایم ایل اے نیرج دیکشت نے تو ان مجلسوں کے ذریعے عام لوگوں کی دقتوں کو راست سننے اور اپنی تنخواہ کی رقم خرچ کر کے انہیں حل کرنے کا عزم بھی لے لیا ہے۔ ایسی مجلسوں میں جمع ہونے والے لوگوں کے موبائل کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اب انہیں باقاعدگی سے گاندھی سے متعلق لٹریچر، پیغام، تقاریر وغیرہ وہاٹس ایپ پر بھیجے جارہے ہیں۔اس سے ایک نیااعتماد بھی پیدا ہوا ہے۔ بعض مقامات پر آپسی جھگڑوں کا حل بغیر پولیس-کچہری کے گاندھی کی تصویر کے سامنے ہوگیا۔ گاندھی چوپال کو عوامی تحریک بنانے والے بھوپیندر گپت کے والد سیوا دل سے وابستہ تھے اور آزادی کی جدوجہد میں کئی بار جیل گئے، ان کے گھر میں کھادی اور گاندھی کی پوجا کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاندھی بابا آج بھی نفرت کو مٹانے کی واحد جڑی ہیں۔
گاندھی جی نے دیہات کی تین بیماریوں کو اس طرح بتایا، پہلی عوامی صفائی کی کمی۔ دوسری مناسب اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی۔ تیسری گاؤں والوں کا ساکت ہونا۔ یہی نہیں گاؤوں کو ان بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے وہ شہر والوں کا تعاون بھی ضروری سمجھتے تھے۔ گاندھی جی دیہاتوں کو اپنی ضروریات کے لیے خود کفیل بھی بنتے دیکھنا چاہتے تھے۔گاندھی جی آزاد ہندوستان کو خودکفیل دیہاتوں کا وفاق بنانا چاہتے تھے۔ گاندھی جی گاؤں کی تہذیب کو کبھی بھی تباہ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ، ہم اعلیٰ دیہی تہذیب کے وارث ہیں۔ ہمارے ملک کی وسعت، آبادی کی وسعت اور ہماری زمین کی حالت اور آب و ہوا نے میرے خیال میں یہ طے کر دیا ہے کہ اس کی تہذیب ایک دیہی تہذیب ہوگی اور دوسری کوئی نہیں۔ ان گرام سبھاؤں میں گاؤں کا وجود کیوں ضروری ہے؟ زراعت کے ساتھ کاٹیج انڈسٹری کو کس طرح کم کر سکتے ہیں؟ ان کے لیے کس قسم کی سرکاری اسکیمیں ہیں؟ ایسے مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔
پہلے یہ مہم 30 جنوری 23 تک چلائی جانی تھی لیکن اب اس کے تئیں لوگوں کے لگاؤکو دیکھتے ہوئے اسے آئندہ 2 اکتوبر تک بڑھایا جا رہا ہے۔ اگلے مرحلے میں ای-چوپال پر زیادہ زور دیا جائے گا تاکہ شہری، نوجوان اور تکنیک سے محبت کرنے والے لوگوں کو گھر بیٹھے گاندھی کی بحث سے جوڑا جا سکے، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل میٹنگ پلیٹ فارم پر ملک کے نامور گاندھیائیوں کو مدعو کیا جائے گا، ایک چھوٹی سی بحث اور پھر لوگوں کا تجسس، سوالات کے جوابات۔ اس عرصے میں کئی ڈیجیٹل گروپس بھی بنائے جارہے ہیں جو موجودہ مسئلے اور اس پر مہاتما گاندھی کے خیالات کو یکجا کرکے لوگوں کے موبائل پر بھیجیں گے۔
گاؤں میں گاندھی کی روح کو زندہ رکھنے کے اس تجربے پر سیاست کے بھی اعتراضات ہیں، کہاجا رہا ہے کہ کانگریس والے اس بہانے دور دراز علاقوں تک اپنی ٹیمیں بنا رہے ہیں۔ حالانکہ گاندھی کو ووٹ کی سیاست سے دور رکھنا چاہیے، پھر بھی اگر کوئی گاندھی کی پالیسی کی تشہیر کرکے سیاست کر رہا ہے تو یہ ملک کی جمہوریت کے لیے ایک مثبت قدم ہو گا۔ کم از کم نفرت کے نام پر تو کوئی سیاست نہیں کر رہا!
[email protected]