جواب طلب سوالوں میں جیتے فلسطینی!

0

ذی ہوش فلسطینی سوالوں میں جیتے رہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں پہلا صہیونی اجتماع-First Zionist Congress- ہوا اور یہ منصوبہ سامنے آیا کہ صہیونی ارض فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں تو اہل فلسطین کے لیے سوال یہ تھا کہ وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ 1917 میں ’اعلان بالفور‘ ہونے اور یہ بات سامنے آنے کہ برطانوی وزیر خارجہ، آرتھر جیمز بالفور نے صہیونیوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھر پور اور عملی مدد دیں گے تو اہل فلسطین کے لیے سوال یہ تھا کہ صہیونیوں کو یہ یقین دلانے کی ان کی بنیاد کیا ہے؟ 1947 تک فلسطین میں یہودی آبادی مجموعی آبادی کا 33 فیصد تھی اور ان کے پاس 6 فیصد زمین تھی۔ فلسطینیوں کی آبادی 67 فیصد تھی اوران کے پاس 94 فیصد زمین تھی لیکن اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ اس طرح بنایا کہ زرخیز زمین سمیت 56 فیصد زمین یہودی ریاست کے لیے دے دی گئی۔ عربوں نے اسے مسترد کر دیا۔ بعدمیں 42 فیصد زمین عرب ریاست یعنی فلسطین کو دی گئی، 55 فیصد زمین یہودی ریاست یعنی اسرائیل کو۔ یروشلم کی 3 فیصد زمین عالمی قبضے میں رکھی گئی۔اہل فلسطین کے لیے سوال یہ تھا کہ انہیں زمین کم کیوں دی گئی اور یہ انصاف کا کون سا پیمانہ ہے؟ جبکہ آج اتنی بھی زمین فلسطینیوں کے پاس نہیں ہے۔
اسرائیل کی تشکیل ہو گئی۔ فلسطین ایک ملک نہیں بن سکا۔ اہل فلسطین بہلائے جاتے رہے،ٹہلائے جاتے رہے مگر ذی ہوش فلسطینیوں کے لیے اس سوال کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوئی کہ فلسطین ایک ملک کیوں نہیں؟ اس سوال میں فلسطینیوں کی بے چینی تھی۔ حالات خراب ہوئے۔ مجبوراً امریکہ کو اوسلو معاہدے کے لیے کوشش کرنی پڑی۔ کیا یہ فلسطینیوں کو بہلانے کے لیے کیا گیا تھا؟ اب یہ بھی ایک سوال ہے ۔ اوسلو معاہدے پر دستخط 1993 میں واشنگٹن ڈی سی میں ہوئے اور 4 نومبر، 1995 کو 25 سالہ ایجال عامیر نے اسرائیل کے وزیر اعظم اسحاق رابن کا قتل کر دیا تو پھر ایک سوال پیدا ہوا – اسحاق رابن کا قصور کیا تھا، وہ امن ہی تو چاہتے تھے، مسئلے کا دو ریاستی حل ہی تو چاہتے تھے، پھر انہیں کیوں مار ڈالا گیا، کیا امن پسند اسرائیلی لیڈروں کو بھی مار ڈالا جائے گا؟ یاسر عرفات کی موت مشتبہ حالت میں ہو گئی۔ اہل فلسطین کے لیے سوال پیدا ہوا کہ اب تمام فلسطینیوں کا لیڈر کون ہوگا؟ حماس نے غزہ پر قبضہ جما لیا اور الفتح مغربی کنارہ پر قابض رہی۔ محمود عباس نے خود بھی تمام فلسطینیوں کے لیڈر بننے کی کوشش کی اور انہیں یہ پوزیشن دینے کی امریکہ نے بھی کوشش کی۔ ایناپولیز کانفرنس میں امریکہ نے محمود عباس کو فلسطینیوں کا نمائندہ بناکر بلایا مگر کامیابی انہیں نہیں مل سکی۔ اس کے بعد سے غزہ کو کھلی جیل میں بدل دیا گیا۔ اہل فلسطین کے لیے یہ سوال تھا کہ محمود عباس بننا چاہتے ہیں تمام فلسطینیوں کے لیڈر تو پھر غزہ کے بارے میں پرزور انداز میں بولتے کیوں نہیں؟
7 اکتوبر، 2023 کو حماس نے حملہ کیا۔ اسرائیل میں کئی لوگ مارے گئے مگر اس کے بعد سے جاری اسرائیلی حملوں میں 38 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایسی صورت میں عالمی برادری کے لیے یہ سوال جواب طلب ہے کہ آخر کتنے فلسطینیوں کو مارا جائے گا؟ آخر امریکہ کیوں تماشائی بنا ہوا ہے؟ غزہ جنگ ختم کرانے کے لیے عملی طور پر کوشش کیوں نہیں کرتا؟ اسرائیل کی بات آتی ہے تو امریکہ بے بس بن جاتا ہے اور اسرائیل کے خلاف بات آتی ہے تو وہ سپرپاور بن جاتا ہے لیکن دنیا سمجھ چکی ہے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ سوال اہمیت کا حامل بن چکا ہے کہ آخر کب تک امریکہ اپنے رعب و داب سے دنیا کو ڈراتا رہے گا؟ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS