مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے فلسطینی ریاست ضروری : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

مشرق وسطیٰ میں امن بحالی کے لیے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرناضروری ہے۔ جب کوئی ملک فلسطین کو تسلیم کرتا ہے تو اسرائیل آگ بگولہ ہوکر اس سے سفارتی تعلقات ختم کرکے سفیروں کو واپس بلا لیتا ہے۔ 143 ممالک کے ذریعہ فلسطین کوپہلے ہی ریاست کا درجہ دینے کے بعد28مئی کو آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے فلسطین کو باضابطہ طور پرایک آزاد ریاست تسلیم کرلیا۔اسی کے ساتھ اقوام متحدہ کے رکن193 ممالک میں سے فلسطین کو تسلیم کرنے والے ملکوں کی تعداد146ہوگئی۔ ناروے کے وزیراعظم جوناس گہراسٹور کے مطابق فلسطین کو ریاست تسلیم نہیں کرنے سے مشرق وسطیٰ میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس کا کہناہے کہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔اسپین کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے ردعمل میں اسرائیل نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یروشلم میںہسپانوی قونصل خانے کے ساتھ سفارتی سرگرمیاں روک دی ہیں۔

اسرائیلی وزیرخارجہ یسرائیل کاٹز نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر اسپین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ یروشلم نے ان کے قونصل خانے کو خدمات فراہم کرنے سے معذرت کرلی۔ ہسپانوی قونصل خانے کے اسرائیلی نمائندوں کے ساتھ روابط منقطع کرتے ہوئے اسرائیلی نمائندوں کو اسپینی قونصل خانے کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا اور اسپین کے ا قدام کو یہود مخالف قرار دیا۔ اسرائیل نے آئرلینڈ اور ناروے سے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا تھا اور24مئی کو اسپین کے قونصل خانے کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔حالاں کہ اسپین نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ نہ تو اسرائیل کی مخالفت میں ہے اور نہ ہی فلسطین کی حمایت میں ہے۔ یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ میں امن کے حق میں ہے۔ دوسری جانب کولمبیا کے صدر گسٹاؤ پیٹرو نے فلسطین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے مغربی کنارے کے شہر راملہ میں سفارت خانہ کھولنے کا حکم دیا ہے۔ غزہ پر وحشیانہ بمباری میں ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع پر چلی اور بولیویا کی طرح کولمبیا نے بھی رواں ماہ کے شروع میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوریاستی حل کے مضبوط حامی امریکی صدر جو بائیڈن نے آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کو یک طرفہ تسلیم کرنے کے بجائے براہ راست بات چیت کے ذریعہ حاصل کیا جانا چاہیے۔ امریکہ ایک طرف فلسطین کو ریاست بنائے جانے کی وکالت کرتا ہے، لیکن دوسری جانب اسرائیل اور فلسطین کی براہ راست گفتگو پر زور دیتا ہے۔اس کا مطلب فلسطین کی آزادی کے لیے اسرائیل کو حتمی فیصلے کا اختیار دینا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 1990 کی دہائی میں امن مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ مسئلے کا دوریاستی حل تجویز کیا گیا تھا، لیکن مذاکرات کا عمل 2000 کی دہائی میں سست پڑگیا۔ اس کے بعد 2014میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت ناکام ہو گئی۔ اسرائیل کے ساتھ خوشگوار تعلقات والے کئی ممالک فلسطین کواس لیے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کے اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ہو جائے گی۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین خطے کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔اس وقت خطے میں عرب لوگوں کی اکثریت تھی،جبکہ یہودی لوگ اقلیت میں آبادتھے۔ اسی دوران عالمی برادری نے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک ’قومی گھر‘ کی تشکیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری برطانیہ کے سپرد کی۔یہودیوں کے نزدیک فلسطین اُن کا آبائی گھر تھا، لیکن کثیر تعداد میں آباد فلسطینیوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔اُدھر1920سے1940کی دہائیوں کے دوران بڑی تعداد میں یہودی فلسطین میںآکر آباد ہوگئے۔ان میں سے کچھ دوسری جنگ عظیم میں یوروپ میں ہولوکاسٹ سے بچ کر فلسطین آئے۔ یہودیوں اور عربوں کے درمیان پُرتشدد واقعات ہونے کے ساتھ برطانیہ حکومت کے خلاف بھی تشدد کے واقعات بڑھنے لگے۔1947میں اقوام متحدہ نے ووٹوں کے ذریعہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ لیا۔اس میں ایک حصہ یہودی ریاست اور دوسرا حصہ عرب ریاست ہوگا،جبکہ یروشلم(بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہوگا۔ یہودی رہنماؤں نے تجویز کو تسلیم کرلیا، لیکن عربوں نے مسترد کردیا۔ ابھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ 1948 میں برطانوی حکمراں خطہ چھوڑ کر چلے گئے۔ 14مئی 1948کویہودیوں نے اسرائیل کو ریاست کا اعلان کر دیا۔ فلسطینیوں نے پُرزور مخالفت کی۔اسی کے ساتھ دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ عربوں نے فلسطین کی حمایت کی،لیکن یہودی عربوں پر بھاری پڑگئے۔ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی گھروں سے بے دخل ہوئے۔ انہیں جان بچاکر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔تاریخ میں اس واقعہ کو النکبہ(تباہی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہونے تک اسرائیل زیادہ ترخطے پر قابض ہوگئے۔اُردن کے ذریعہ حاصل خطہ غرب اُردن(ویسٹ بینک) کہلاتا ہے۔ مصر نے غزہ پٹی کو اپنے قبضے میں لیا۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیل نے سنبھال لیا،جب کہ اُردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔چوں کہ کسی قسم کا امن معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے ہر فریق نے اپنے مخالف پر الزام لگایا۔ اس بنا پر مزید جنگیں ہوئیں۔ 1967 میں ہوئی6روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غرب اُردن کے ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد پناہ گزیں بنے زیادہ تر فلسطینی اوران کی آنے والی نسلیں اَب غزہ پٹی اور غرب اُردن میں رہتے ہیں۔ بہت سے فلسطینی اُردن، شام اور لبنان میں مقیم ہیں۔ اسرائیل نے پناہ گزینوں اور ان کی نئی نسلوں کو ان کے گھروں کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کے ملک کے لیے نقصان دہ اور یہودی ریاست کے لیے خطرہ ہوگا۔ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین سمیت زیادہ تر ممالک اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔مسلم ملک البانیہ،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ہندوستان بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ افغانستان، پاکستان، الجزائر، بنگلہ دیش، بھوٹان، برونائی، انڈونیشیا، عراق، کویت، لبنان، لیبیا، ملیشیا، صومالیہ اور سوڈان سمیت20ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر1947میں فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہوتاتو فلسطین ایک آزاد مملکت کے ساتھ بہتر پوزیشن میں ہوتا۔ اَب فلسطین کا معاملہ اگر مگر میں اُلجھ کرزیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔

دراصل اسرائیل یروشلم پر دعویٰ کر اسے اپنا دارالحکومت بتاتا ہے،لیکن دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔فلسطین مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کی سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر ہونی چاہئیں،لیکن فلسطین کے مطالبے کو اسرائیل تسلیم نہیں کرتا۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے1967کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیرقانونی بستیاں بسالی گئی ہیں۔ 15نومبر 1988کو پہلی انتفاضہ کے ابتدائی برسوں میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) کے چیئرپرسن یاسر عرفات نے الجزائر سے فلسطین کے آزاد ریاست ہونے کا اعلان کیا،جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ الجزائر نے اسے تسلیم کرلیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حقوق میں اضافے کے ساتھ فلسطین کی رکنیت کا مطالبہ کیا ہے۔ 2012سے فلسطین کوغیر رکن ریاست کا درجہ حاصل ہے۔فلسطین کو اقوام متحدہ میں دیگر ریاستوں کی طرح ووٹ اور مباحثے میں حصہ لینے کے ساتھ خود مختار ریاست کے حقوق ملنے چاہئیں۔رکنیت کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی کرسکتی ہے۔ آئرلینڈ،ناروے اور اسپین کی پہل فلسطینی ریاست کے قیام میں مثبت ثابت ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ جب تک امریکہ سمیت مغربی ممالک سنجیدگی سے کام نہیں لیتے تب تک فلسطینی مسئلے کا دیرپا حل مشکل ہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS