محمد حنیف خان
زندگی بڑی خوبصورت ہے اور دنیا بہت رنگین،خوشنما خواب اس زندگی اور دنیا دونوں کو حسین تر بنادیتے ہیںمگر کیا یہ خوبصورتی،خوشنمائی اور خواب فلسطینیوں کی بھی آنکھوں میں ہیں؟یقینی طور پر اس کا جواب نفی ہے کیونکہ غاصب اسرائیل نے ان کی زندگی جہنم بنادی ہے۔گزشتہ چند دنوں کے اسرائیلی حملوں میں تقریباً ایک ہزار فلسطینی شہید ہوگئے۔اسرائیل کی خود سری ابھی تک دنیا والے ہی دیکھ رہے تھے مگر اب اسرائیلیوں کو بھی اپنی حکومت کی خودسری کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔اسرائیلی جنگ کے بجائے مغویہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرے کر رہے ہیں جن کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جب سے اسرائیل نے معاہدے کی عدم پاسداری کرتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کیے، امریکی صدر دو مرتبہ اپنی حیرت اور ناراضگی کا اظہار کرچکے ہیں۔پہلی بار جب جنگ کا دوبارہ آغاز کیا تھا تب بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ مغویہ افراد کی بازیابی سے قبل دوبارہ جنگ شروع کی جائے اور اب انہوں نے اس بات پر حیرت و تعجب کا اظہار کیا ہے کہ مغویہ اسرائیلیوں کی بازیابی اسرائیلی حکومت کی فہرست سے اب خارج ہے۔اسرائیلی صدر کسی بھی طرح سے فلسطینیوں کو محفوظ بنانے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک ایک اسرائیلی کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں اور حکومت پر اپنی ناراضگی کا اظہارکر رہے ہیں مگر یہاں ان کی زبان سے ان کا اپنا پہلے سے تیار کردہ پلان بھی سامنے آگیا کہ مغویہ اسرائیلیوں کی بازیابی سے قبل حملہ کیوں شروع کردیا؟
متعدد تجزیہ کاروں نے پہلے ہی اس خدشے کااظہار کیا تھا کہ اسرائیل بہر صورت فلسطین پر جنگ تھوپے گا اور وہ اپنے معاہدے کو توڑ دے گا۔اس وقت فلسطین میں یہی ہو رہا ہے۔فلسطین کے حالات ناگفتہ بہ ہیں،حالانکہ دنیا اب اس جنگ کی عادی بھی ہوچکی ہے۔فلسطین پر کتنی بھی بمباری کردی جائے اب کوئی چوں تک نہیں کرتا،کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔دھیرے دھیرے دنیا کے مختلف علاقوں میں ہونے والے مظاہرے بھی دم توڑ گئے۔اس جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ہندوستان میں ملکی سطح پر ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف دھرنے ومظاہرے نہیں ہوئے۔فلسطینی مستقل دنیاسے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی اور امریکی سفارت خانوں کا گھیراؤ کریں اور ان پر دباؤ ڈالیں کہ یہ جنگ رکے،کیونکہ فلسطینی بچے مرنا نہیں چاہتے، وہ جینا چاہتے ہیں مگر اسرائیل اور امریکہ یہاں بے گناہوں کو جینے نہیں دے رہے ہیں۔
چند دنوں قبل ہندوستان کی مارکسوادی پارٹیوں نے دہلی میں اسرائیل کی بربریت کے خلاف مظاہرے کیے اور اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جنگ کو بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ حکومت ہند کی خاموشی پر بھی سوالیہ نشان لگائے اور کہا گیا کہ ہندوستان نے ہمیشہ ’’اہنسا‘‘ کا پیغام دیا ہے، اس لیے مرکزی حکومت کو اب اس معاملے میں آگے آنا چاہیے اور انسانیت کو بچانا چاہیے۔
ملک کی مسلم تنظیموں یا دیگر افراد نے اس طرح کے مظاہروں کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟حکومت ہند سے ایسا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟اسرائیل اور امریکہ کے سفارت خانوں کا گھیراؤ کرکے انہیں متنبہ کیوں نہیں کیا کہ اگر اسرائیل نے فلسطینی بچوں، ماؤں اور بزرگوں پر بمباری نہیں بند کی تو یہاں ان کے سفارتی عمل میں دشواریاں پیدا ہوں گی؟ایسا کیا جا سکتا تھا مگر نہیں کیا گیا، اس کے پس پشت اس خوف کے سوا کچھ نہیں جو میڈیا نے پیدا کیا ہے۔یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ حکومت ہند کا جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے اور جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے، اسرائیل سے اس کے تعلقات مزید گہرے ہی ہوئے ہیں کیونکہ نظریاتی سطح پر اسرائیل،بی جے پی اور آر ایس ایس کہیں نہ کہیں ایک ہی نکتے پر پہنچتے ہیں۔اسرائیل نے سفارتی سطح پر خود کو ہندوستان میں اس قدر مضبوط بنالیا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلم اسرائیل کے خلاف مظاہرے کے لیے حکومت سے اجازت طلب کریں تو وہ بھی نہیں ملے گی۔اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں میں اس بات کا خوف ہے کہ اگر انہوں نے اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کے لیے اجازت کی درخواست دے دی تو وہ حکومت و انتظامیہ کی رڈار پر آجائیں گے اور دیر سویر ان کے خلاف کارروائی ہوجائے گی۔
فلسطین کی حمایت میں بولنے پر حکومتی سطح سے کسی طرح کی پابندی تو نہیں ہے لیکن ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کسی میں ہمت نہیں بچی ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں اور اسرائیل کے خلاف ملک میں کوئی دھرنا و مظاہرہ کرسکے اور خاص طور پر مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ خوف بھر دیا گیا ہے،یہ صرف خوف نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کی حمایت میں ہندوستان میں آواز اٹھاناسماجی سطح پر بھی جرم بن گیا ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹس پر دیکھ لیجیے، دائیں بازوں کی ذہنیت رکھنے والے متشدد افراد سیدھے طور پر فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں،ہندوستانی مسلمانوں کو اسرائیل کے اسٹائل میں سبق سکھانے کی دھمکی دے رہے ہیں اور حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ نیتن یا ہو کی طرح کارروائی کی جائے۔بلڈوزر کلچر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسرائیل سے ہی سیکھا گیا ہے اور اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں کے گھر منہدم کیے جارہے ہیں۔
اسرائیل نے جب سے دوبارہ جنگ کا آغاز کیا ہے، فلسطینیوں کی زندگی پھر سے اجیرن ہوگئی ہے،غذا اور دوا کی قلت کے ساتھ ہی طرح طرح کی بیماریاں بھی پھیلنے لگی ہیں،خیموں میں پڑے غذائی قلت کے شکار بچوں کی تصویریں دیکھ کر آنکھیں آشکبار ہوجاتی ہیں۔ہندوستانی مسلمان ان مرتے ہوئے فلسطینی بچوںکی مدد کرنا چاہتا ہے، انہیں مرنے سے بچانا چاہتا ہے،مگر کوئی ایسا طریقہ اس کے سامنے نہیں ہے کہ وہ ان کی مدد کرسکے،اس لیے ایک ایسا میکانزم تیار کیے جانے کی ضرورت ہے جس سے دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی کی بھی مدد کی جاسکے۔ابھی تو ان مظلوموں کی مدد بھی خطرات سے پر ہے، ایسے میں لوگ حکومت کے دام میں آنے سے بچنے کے لیے اپنا دست تعاون نہیں بڑھا پا رہے ہیں۔مسلمانوں سے وابستہ ملک کی بڑی بڑی تنظیموں کو اس سلسلے میں حکومت سے ملنا چاہیے اور اس پر گفتگو کرنی چاہیے۔
اسرائیل کی حالیہ بمباری میں فلسطین مزید تباہ ہوا ہے، جانوں کا اتلاف رکنے کے بجائے دراز ہوتا جا رہا ہے۔ حماس نے پوری دنیا کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ 28،29اور 30مارچ کو اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر مظاہرے کریں،اسرائیلی اور امریکی سفارت خانوں کا گھیراؤ کرکے انہیں جنگ بندی پر مجبور کریں،انہیں اس بات پر مجبور کریں کہ وہ فلسطینی بچوں کا قتل بند کرنا کریں۔حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے معاہدہ اس لیے توڑا ہے تاکہ فلسطین پر قبضے کی راہ ہموار ہوسکے،جس کی تصدیق اسرائیلی وزیر دفاع کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ مزید فلسطینی علاقوں پر قبضے کرے۔اسی لیے حماس نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو قبضہ سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔یہ صہیونی ریاست پوری طرح سے فلسطینیوں کا خاتمہ کرنے پر مصر ہے،عالمی اصولوں کے مطابق کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضہ نہیں کرسکتا،اس کی خود مختاری پر حملہ نہیں کرسکتا مگر یہاں سبھی اصول بمباری میں نیست و نابود ہوچکے ہیں۔لیکن زندگی کی رمق کو ان اصولوں کے بجائے عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور فلسطین اسی عزم و ثبات کا ثبوت دے رہا ہے۔