فلسطین-اسرائیل جنگ

0

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک بار پھر جنگ چھڑگئی ہے اور ماضی کی طرح اس بار بھی امریکہ ،یورپی اورکچھ دوسرے ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوکرماضی کی طرح حماس کو کوستے ہوئے کہہ رہے ہیںکہ اسرائیل کو حق دفاع حاصل ہے ، وہیں مسلم اورعرب ممالک نے دونوں فریقوں سے صبر،تحمل اورجنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے عالمی برادری اوراسرائیل کو نصیحت کی کہ2ریاستی حل کی سمت میں قدم آگے بڑھایا جائے تاکہ خطہ میں مستقل امن کا قیام ہو۔ اب بھی وہی صورت حال ہے کہ کچھ ممالک مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اورکچھ کو صرف اسرائیل کی بقااورسلامتی سے مطلب ہے۔ فلسطین اورفلسطینیوں کا کیا ہوگا ، اس پر وہ موجودہ حالات میں بھی بات کرنا نہیں چاہتے ۔ اسی لئے انہوں نے فلسطین کے تعلق سے ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ فلسطین کے واحد آزاد خطہ غزہ پٹی کے حکمراں حماس گروپ نے جس منظم طریقے سے5ہزار سے زیادہ میزائیلوں سے حملہ کیا ، اس سے پوری دنیا حیران وپریشان ہے ،دنیاکی سب سے طاقتور، ماہر اورمضبوط نیٹ ورک والی اسرائیل کی انٹلی جنس موساد بھی ناکام ثابت ہوئی ، جس کی وجہ سے اسرائیل کو بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا ہے اور پہلی بار فلسطینیوں نے کچھ علاقوں میں داخل ہوکر ان پر قبضہ کیا ہے، ورنہ اب تک اسرائیل ہی فلسطینی علاقوں میں داخل ہوکر انہیں کسی نہ کسی بہانے خالی کراتا رہا اورمکانات کو توڑ کر وہاں غیر قانونی یہودی بستیاں بناتا رہاہے ۔ حماس کے حملے کو کچھ لوگ اچانک بتارہے ہیں ، لیکن یہ ان کیلئے ہوسکتاہے جن کی انٹلی جنس ناکام ثابت ہوئی ، یا جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی قسمت میں اسرائیلی مظالم اور جارحیت کو برداشت کرنا اورمرنا لکھ دیا گیاہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اوراتنے منظم طریقے سے حملے ایک دن میں نہیں ہوسکتے ۔ اس کیلئے بہت پہلے سے تیاری کی گئی ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ فلسطینیوں پر روز اسرائیلی فوجی حملے کرتے ہیں۔کوئی دن ایسانہیں گزرتا جب دوچارفلسطینی اسرائیل کے ذریعہ مارے نہ جاتے ہوں ۔روز ان کی اراضی پر غیرقانونی عمارتیں تعمیر نہ کی جاتی ہوں اورمسجد اقصیٰ پر دھاوے نہ بولے جاتے ہوں، پھر بھی فلسطینیوں کی طرف سے جوابی کارروائی نہ ہو ئی۔کیایہ ممکن ہے ؟
اسرائیلی فوجی روز فلسطینیوں کو مارتے ہیں ، اس کی خبر نہیں بنتی ۔ دنیابھی خاموش بیٹھی رہتی ہے، جیسے اسرائیل کچھ غلط نہیں کررہاہے۔خبرتب بنتی ہے جب فلسطینی جوابی کارروائی کرتے ہیں اس جوابی یا انتقامی کارروائی کو اچانک نہیں کہہ سکتے ، کبھی کبھار کی کارروائی ضرور کہہ سکتے ہیں ۔ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں تو کیا فلسطینی حالت امن میں رہتے ہیں؟ یہ بات پوری دنیاکیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد کیا نقصان پہنچایا فلسطین اورفلسطینیوں کو؟ کس نے کس کا حق غصب کیا؟اور کس کی اراضی پر قبضہ ہوا؟ اسرائیل کیلئے جس حق دفاع کی بات باربار کہی جاتی ہے ، کیافلسطینیوں کیلئے اپنی جان ، اراضی، ریاست اورخودمختاری کے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے ؟ جس کی بات دنیا بھولے سے بھی نہیں کرتی ۔یقیناماضی کی طرح دونوں طرف کے ہتھیارختم ہونے یا دنیا کی مداخلت ، ثالثی اورمذاکرات کے ذریعہ جنگ بندی ہوجائے گی ، لیکن اپنے پیچھے وہی سوالات چھوڑ ے گی کہ کیافلسطین اوراسرائیل کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ جب اسرائیل جارحیت کا مظاہرہ کرے گا تو دنیاخاموش رہتی ہے اورفلسطینی کارروائی کرتے ہیں تو دنیا خاموشی توڑ کر اسرائیل کے حق میں کھڑی ہوجاتی ہے ۔ اب تک یہی ہوتارہاہے۔
اوسلو معاہدہ جس میں فلسطینیوں نے قیام امن کیلئے بہت کچھ سمجھوتہ کیا تھا ، دنیا کیلئے بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کا بہترین موقع تھا،لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایاگیا۔ معاہدہ کے بدلہ میں اسرائیل کو دنیابھر سے منظوری مل گئی ، لیکن فلسطینیوں کو صرف نام نہاد حکومت وہ بھی مقبوضہ مغربی کنارے میں جہاں اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو روزانہ مظالم کا شکار بناتے ہیں،ان کے مکانات کو توڑ کر یہودی بستیاں بنائی جاتی ہیں اورفلسطین کی نام نہاد حکومت کچھ نہیں کرپاتی ہے ۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر قیام کے بعد سے اسرائیل مضبوط اوروسیع ہوتاچلاگیا اورفلسطینی آج بھی ریاست کیلئے ترس رہے ہیں ۔وہ وقتاًفوقتاً اسرائیل کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہیں ، جسے جنگ کانام دیاجاتاہے ۔یہ نہ صرف اسرائیل کے تئیں اپنے غم وغصہ کا اظہارہوتاہے ، بلکہ دنیااورعالمی برادری واقوام متحدہ سے مایوسی کی علامت بھی ہے ۔کم از کم دوریاستی حل پر آگے بڑھناوقت کا تقاضا بھی ہے اورضرورت بھی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS