محمد حنیف خان
اس آزاد خیال دنیا میں بیکسوں اور بے سہاروں کی آواز دبا دی گئی، طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرکے ظلم کی کہانی سنانے والوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ مہذب دنیا تماشے دیکھتی رہی اور آزادی اظہار خیال کا نعرہ لگاتی رہی، ہر ملک اس بات کا دعوی کرتا رہا کہ مخالفت کی آواز ہم نہیں دباتے ہیں، ظلم کے خلاف ہم سینہ سپر ہیں مگر اس دنیا کی یہ حقیقت ہے کہ مخالفت کی آواز ہر جگہ دبا دی جاتی ہے، ہر روشن خیال فرد یا ملک اسی وقت روشن خیال بنتاہی ہے جب وہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتابلکہ طاقت کے زور پر سب پر ڈنڈے چلتاہے۔گزشتہ ڈیڑھ برس میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہوایہ دنیا جانتی ہے اس کے باوجود ان ہی کی آواز دبائی جاتی ہے، اول انہیں بولنے نہیں دیاجاتا اور اگر وہ بول بھی دیں تو ان کی آواز دنیا نہیں پہنچنے دی جاتی۔
فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی آواز دبانے کے سلسلے میں کئی رپورٹ شائع ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی نے اس پر ایک رپورٹ شائع کی ہے، اس سے قبل ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کولمبیا جرنلزم رویو بھی رپورٹ شائع کرچکی ہیں۔مغربی دنیا کے اصول ہمیشہ دوہرے رہے ہیں، اس نے اصولوں پر عمل کے بجائے ان سے اپنے مفادات کا تحفظ کیاہے۔ مغربی دنیا نے جن نعروں کے ذریعہ دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا اور روشن خیالی کی چھاپ دوسروں پر قائم کرنے کی کوشش کی ان میں حقوق نسواں، اظہار خیال کی آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت وغیرہ اہم ہیں لیکن اگر دیکھاجائے تو یہی سب وہ شعبے ہیں جہاں اس کے دوہرے معیار بھی سامنے آئے ہیں جس سے اس کی کھوکھلی نعرے بازی بھی آشکار ہوگئی ہے۔ اظہار خیال کی آزادی کو سوشل میڈیا نے پنکھ دے دیے تھے، جب سوشل میڈیا کا آغاز ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ اب کوئی کسی کی آواز نہیں دبا سکتاہے، جس کے دل میں جو بھی بات آئیگی اور اس کا وہ اظہار کرنا چاہے گا تو اب کوئی اسے روک نہیں سکے گا کیونکہ اس سے قبل اخبار اور ٹیلی ویزن ہی تھے جو خیالات کو دوسروں تک پہنچاتے تھے مگر چونکہ اس کا ایسا نظام ہے جس کی وجہ سے ہر شخص اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے ان ذرائع کا استعمال نہیں کرسکتا۔ مگر سوشل میڈیانے ہر فرد کو اس بات کی آزادی دی کہ وہ اپنی بات کہہ سکے۔مغربی دنیا پر یہ بات صادق آتی ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے الگ اور دکھانے کے الگ ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ نیسوشل میڈیاکے حوالے سے بھی کچھ اصول بنائے ہیں جن کے تحت ایسی کمپنیوں کو اقوام متحدہ کے اصول (UNGPs) پر عمل ضروری ہے، جس کے تحت کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی سے گریز کریں، اگر کسی بھی وجہ سے حقوق انسانی متاثر ہوتے ہوں تو ان مسائل کا ازالہ کریں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے لازمی ہے کہ ان کے مواد میں اعتدال ہو، پالیسیاں حقوق انسانی کے بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ ہوں، یہ یقینی بنانا بھی لازمی ہے کہ سوشل میڈیا سے اگر کوئی مواد ہٹانے کا فیصلہ کیاجائے گا تو وہ شفاف ہوگا، تعصب کو جگہ نہیں دی جائے گی۔ ان پالیسیوں کا نفاذ یکساں اور مستقل ہوگا۔فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے سوشل میڈیا خاص طور پر میٹا کی کمپنیوں فیس بک اور انسٹاگرام وغیرہ نے جو رویہ اختیار کیا وہ نہایت تشوشناک ہے۔ یوٹیوب، ٹوئٹر یہاں تک کہ گوگل یعنی سبھی جدید ذرائع ابلاغ ،پلیٹ فارم نے اس معاملے میں دوہرا رویہ اختیار کیا ہے۔
صدا سوشل سینٹر(جو فلسطینی مواد کے خلاف سوشل میڈیا کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتا ہے) نے 2020 میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ گوگل یا ایپل کے نقشوں پر فلسطین کی شناخت اس طرح نہیں کی گئی، بلکہ صرف مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے طور پر کی گئی ہے۔ گروپ نے یہ بھی پایا کہ گوگل نے اسرائیلی سڑکوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے نقشوں سے فلسطینی شہروں اور سڑکوں کے نام ہٹانا شروع کر دیاہے۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان 7 اکتوبر 2023 کے بعد جنگ صرف ایک محاذ پر شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ آلات حرب و ضرب کے ساتھ سوشل میڈیا پر شروع ہوئی یہاں بھی یہ جنگ دو سطحی تھی اول دونوں ممالک اور ان کی وکالت کرنے والوں کے درمیان دوم خود سوشل ویب سائٹ کی کمپنیوں نے فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کا گلا گھونٹ کر ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا. 18 اکتوبر 2023 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمس میں اسٹورٹ اے تھاپمس اور مائک اسحاق(Stuwart A Thopson, Mike Isaac کی رپورٹ Hamas Is Barred from socil media. its Messages are still spreading شائع ہوئی جس میں دونوں بتایا تھا کہ سوشل میڈیا کے کن کن پلیٹ فارم سے فلسطین کے اکاؤنٹ ڈلیٹ کیے گیے. اس رپورٹ کی سرخی میں غصہ دکھائی دے رہاہے، نیویارک ٹائمس کے ان دونوں رپوررٹروں کی خبر پڑھ محسوس ہورہاہے کہ جب فلسطین اور اس کے حامیوں کو سوشل میڈیا سے سب نے مل کر ہٹادیا تو کیسے یہ اس کا استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ایسے اکاؤنٹس کی ان دونوں نے نشاندہی بھی کی ہے۔
بی بی سی (عربی) نے گزشتہ ایک برس میں فیس بک کے 20 اہم نیوز آؤٹ لیٹس کے فیس بک صفحات کے انگیجمنٹ تفصیلات جمع کرکے ان کا جائزہ لیا ہے جس کے بعد ایک رپورٹ تیار کی ہے. انگیجمنٹ(جس میں پوسٹ کیے گیے مواد پر کمنٹ، شیئر، ری ایکشن اور اس کا شیئر کرنا شامل ہے) سے پتہ چلتاہے نیوز آؤٹ لیٹ کا سوشل میڈیا کتنا بااثر ہے اور کتنے لوگ اس کے صفحے کو دیکھتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق فلسطینی مواد کے انگیجمنٹ میں 77 فیصد کی کمی آچکی ہے۔ فیس بک پر Palestine TV کے 58 لاکھ فالوور ہیں لیکن جنگ کے بعد سے اس کا پوسٹ دیکھنے والوں میں 60 فیصد کی کمی آئی ہے، کیونکہ میٹا نے’یوزرس انٹر ری ایکشن پوری طرح سے بند کردیاہے۔ در اصل میٹا نے ان کے آن لائن مواد کو ’ شیڈو بین‘ کردیاہے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ میٹا یہ طے کر رہی ہے اس مواسد کو کتنے لوگ دیکھیں گے. جبکہ دوسری جانب اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ یدیعوت اہرنوت، ہیوم اسرائیل جیسے 20 کمپنیوں کے صفحات دیکھنے والوں میں 37 فیصد کا اضافہ ہوا۔انسٹاگرام پر کچھ دستاویز لیک ہوگئے تھے جن میں فلسطین اور اسرائیل سے متعلق رہنما ہدایات تھیں، جنہوں نے انسٹاگرام پر فلسطینیوں کی پوسٹ اور اس پر رد عمل کو مشکل بنا دیا تھا۔اکتوبر- نومبر 2023 کے درمیان، ہیومن رائٹس واچ نے انسٹاگرام اور فیس بک کے 1,050 سے زیادہ ہٹائے مواد کا جائزہ لیا جو فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی طرف سے پوسٹ کیے گئے تھے۔اس رپورٹ کے لیے جن 1,050 مواد کا جائزہ لیا گیا، ان میں سے 1,049 میں فلسطین کی حمایت میں پرامن مواد شامل تھا جسے سنسر یا بصورت دیگر غیر ضروری طور پر دبایا گیا، جب کہ ایک کیس میں اسرائیل کی حمایت میں مواد ہٹانا شامل تھا۔ یہ مواد دنیا بھرکے 60 سے زائد ممالک سے پوسٹ کیا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق حقوق و مسائل کی بحث پر فیس بک کی سنسر شپ کو دستاویزی شکل دی اور متنبہ کیا کہ میٹا بہت سے لوگوں کو من مانی اور وضاحت کے بغیر خاموش کر رہا ہے، آن لائن طاقت کے عدم توازن اور حقوق کی خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پایا کہ سوشل میڈیا پوسٹس کی ایک بڑی تعداد غزہ میں شہریوں پر اسرائیل کے حملوں کی تعریف کرتی ہے، غزہ کی تباہی کی حمایت کرتی ہے اور فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی وکالت کرتی ہے۔ بہت سی پوسٹس میں فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی اور نسل پرستانہ زبان استعمال کی گئی ہے، جن میں سے کچھ اسرائیلی حکام کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان پر بھی مبنی ہیں،لیکن ان کو نہیں ہٹایا گیا کیونکہ یہ اسرائیل کی جانب سے اور اس کی حمایت میں پوسٹ آئے تھے۔
27 اکتوبر 2023 کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی شائع رپورٹ میں کہاگیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فلسطینی اکاؤنٹس اور فلسطینیوں کے حقوق کے حامیوں کے مواد کی وسیع پیمانے پر سنسرشپ کی نشاندہی کرنے سے متعلق رپورٹس بھی موصول ہوئیں۔ مقبوضہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مواصلاتی بلیک آؤٹ میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے ان کی معلومات حاصل کرنے اور فراہم کرنے کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعہ مواد پر متعصبانہ پابندی غزہ کے اندر اور باہر فلسطینیوں کی آزادی اظہار ان کے حقوق استعمال کرنے کی صلاحیت کو مزید نقصان پہنچاتی ہے۔کولمبیا جرنلزم رویو میں 19 مئی 2021 کو میتھیو انگرام(Mathew Ingram) کی شائع رپورٹ social networks accused of censoring palestinian content میں وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح سے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی آوازیں دباتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ موجودہ جنگ کی وجہ سے اس سنسرشپ کا آغاز کیاگیاہے، یہ ضرور کہ اس کی وجہ سے اس میں تیزی اور سختی ضرور آئی ہے ورنہ اظہار خیال کی آزادی کا نعرہ لگانے والے پیلے سے یہ فیصلہ کیے ہوئے بیٹھے ہیں کہ کس کی آواز دبانا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس نے اگر اپنا رویہ درست نہیں کیا اور طاقت کے نشے میں آواز دبائی تو اس کا بھی حشر اخبار اور ٹیلی ویزن کی طرح ہی ہوگا۔