محمد حنیف خان
فلسطین و اسرائیل کے مابین جنگ بندی ایک پر فریب وقفہ ثابت ہوئی ہے۔اگر حماس سبھی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا بھی کردیتا، تب بھی یہی ہونا تھا۔اس کے متعدد اسباب و جوہ ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو شروع سے ایک بات کہتے رہے ہیں اور پرفریب وقفہ جنگ بندی کے دوران اور دوبارہ جنگ شروع ہونے کے بعد بھی انہوں نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دیں گے۔ان کے اس بیان کے پس پشت بہت کچھ ہے جسے اسرائیلی تھنک ٹینک متعدد بار دوہرا بھی چکی ہے۔دراصل یہ جنگ جہاں ایک طرف اسرائیلی وزیراعظم کے لیے سنجیونی ہے،جس سے ان کی سیاست کو حیات نو ملی ہے،اگر یہ جنگ بند ہوجائے تو ان کی سیاست کا آج بھی خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ متعدد بدعنوانیوں میں وہ ملوث ہیں اور مقدمات زیر سماعت ہیں۔دوسری طرف یہ جنگ ان متشدد اور متعصب صہیونیوں کے لیے ایک موقع کے طور پر سامنے آئی جن کی آنکھوں میں ’’عظیم اسرائیل‘‘ کا خواب ہے۔ان کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ فلسطینیوں کا کلی طور پر خاتمہ کرکے اسے اسرائیلی عملداری میں شامل کرلیا جائے اور وہاں نئی بستیاں بسائی جائیں۔
نیتن یاہو اور دائیں بازو کی متشدد و متعصب صہیونی سیاسی پارٹیاں کبھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ جنگ بندی ہو،اسی لیے جب جنگ بندی کا اعلان ہونے والا تھا تو اس سے قبل ہی اسرائیلی وزیر دفاع مستعفی ہو کر حکومت سے الگ ہوگئے اور اب جب کہ نیتن یاہو نے دوبارہ جنگ شروع کردی ہے تو پھر حکومت میں شامل ہوگئے۔دوسری پارٹیاں بھی اسی کا مطالبہ کر رہی تھیں اور اس بات کا خوف تھا کہ وہ بھی حکومت سے باہر ہوجائیں، ایسے میں نیتن یاہو کی حکومت گر جاتی۔ اس لیے نتن یاہو نے اپنی حکومت بچانے کے لیے دوبارہ جنگ شروع کردی ہے۔
دووسرے مرحلے کی جنگ بندی میں توسیع کے لیے اسرائیل کبھی بھی تیار نہیں تھا،اسی لیے اس نے نہ صرف ایسی شرائط حماس کے سامنے رکھیں جو قابل قبول نہ ہوں،پہلی بات تو اسرائیل نے معاہدے کی عدم پاسداری کرتے ہوئے امدادی اشیاء کی فراہمی پر روک لگا دی،اس نے اپنی فوج کو غزہ سے باہر نکالنے سے انکار کردیا۔یہ وہ باتیں ہیں، جنہوںنے دوبارہ جنگ کی زمین تیار کی۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے ہتھیاروں کا مقابلہ حماس نہیں کرسکتی ہے،ان کے پاس نہ تو اسلحہ جات ہیں اور نہ ہی دوسرے ساز و سامان،ان کے پاس تو اب کھانے پینے کی اشیاء تک نہیں ہیں، ایسے میں اسرائیل نے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایسی شرائط عائد کی تھیں،اس کے بعد خود اس نے جنگ میں جانے کا فیصلہ کرلیا اور پورا الزام حماس کے سر منڈھ دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاملے میں آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔حالانکہ دنیا اس سچائی کو جانتی ہے کہ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے۔اس نے گولان کی پہاڑیوں کا مزید حصہ اپنے قبضے میں کرلیا ہے،اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت فلسطین سے اپنی فوج کو نہ نکال کر مزید حصے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ یہاںنئی یہودی بستیاں بسائے۔اسی لیے اس نے دوبارہ جنگ کا آغاز کیا ہے۔
یہودی یرغمالیوں کی رہائی وزیراعظم نیتن یاہو کے منصوبے میں ہمیشہ ثانوی حیثیت میں رہی، اسی لیے اس نے ان کی بازیابی کے لیے معاہدے پر زور دینے کے بجائے بمباری کو ترجیح دی ہے تاکہ یہ جنگ طویل سے طویل ہوتی رہے،یہ جنگ جتنی زیادہ طویل ہوگی، اسی اعتبار سے ذاتی طور پر نیتن یاہو کو فائدہ ہوگا اور فکری سطح پر متعصب صہیونی سیاسی پارٹیوں کو تسکین ملے گی،اسی فائدہ اور تسکین کے لیے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے،ورنہ یروشلم میں مغویہ افراد کے اہل خانہ مظاہرہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کی بازیابی کا واحد راستہ حماس سے معاہدہ کرنا ہے۔حماس نے بھی اب یہ اعلان کردیا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی تمام ریت چھان مارے تب بھی وہ اپنے مغویہ افراد تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا ہے۔دنیا نے گزشتہ ڈیڑھ برس میں یہ دیکھا بھی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کاحماس نے کس طرح پامردی سے مقابلہ کیا ہے اور ان دونوں کو اپنے مقاصد کے حصول سے کس قدر دور رکھا ہے۔
اسرائیل ہمیشہ سے کہتا رہا ہے کہ وہ حماس پر حملے کر رہا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ اس نے حماس کے بجائے فلسطینی عوام کو نشانہ بنایا ہے اور اب تک 50ہزار سے زائد شہریوں کا بے دریغ قتل کیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ حملے میں ہلاک ہونے والوں میں 70فیصد بوڑھے،بچے اور خواتین شامل ہیں،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے یا حماس پر حملے کر رہا ہے۔ اسرائیل کے تمام بلند بانگ دعوؤں کے برخلاف حماس نے یہ بھی دکھا دیا کہ دنیا کی یہ دونوں بڑی فوجی طاقتیں حماس کے ٹھکانوں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتی ہیں۔معاہدے کے تحت جب حماس یہودی مغویہ افراد کو رہا کر رہی تھی تو اس کے سیاہ پوش مجاہدین نے دنیا کو بتایا کہ دیکھو ہم پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔
اسرائیل کے ذریعہ غزہ پر دوبارہ بمباری اور اس میں 400سے زائد ہلاکتوں کے بعد برطانوی اخبار The Guardian میں سیمون ٹسڈال(Simon Tisdall)نے مضمون بعنوانNetanyahu will never accept peace. Where will his perpetual war lead next?لکھا ہے۔اس مضمون میں فاضل مضمون نگار نے جنگ کے وجوہ و اسباب، نیتن یاہو کی نفسیات اور ان کے عمل کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کی سفاکی فلسطینیوں کا خاتمہ چاہتی ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’نتن یاہو نے کبھی سنجیدگی سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے احترام کا ارادہ نہیں کیا،جس کا آغاز یکم مارچ سے ہونا تھا،جس میں اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا گیاتھا۔اس نے انسانی امداد کو روک دیا،اس نے پانی اور بجلی کی فراہمی منقطع کردی،اس نے دوسرے مرحلے پر عمل در آمد میں تاخیر کی اور اسے دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالی۔ اس نے دوسرے طریقوں سے جنگ چھیڑ دی اور جب یہ اشتعال انگیزیاں ناکام ہوئیں تو اس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اصرار کیا کہ حماس یکطرفہ طور پر سبھی یرغمالیوںکو آزاد کرے، جب خود اس نے یہ پیش کش کی کہ وہ بدلے میں صرف محدود قیدیوں کو رہا کرے گا اور جنگ بندی بھی عارضی ہوگی۔‘‘
سیمون ٹسڈال نے بہت صاف لفظوں میں نیتن یا ہو کی مکاریوں اور عیاریوں کو بے نقاب کیا ہے اور دنیا کو بتایا ہے کہ انہوں نے کس طرح دھوکہ اور فریب سے کام لیا ہے۔جو لوگ یہودیوں کی سرشت سے واقف ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی پوری تاریخ اسی طرح کی دھوکہ دہی اور مکاریوں سے بھری پڑی ہے جس کا اعادہ نیتن یا ہو کر رہے ہیں۔اسرائیلی اخبار ہارٹز کے اموس ہیرل(Amos Harel)نے لکھا ہے کہ نیتن یا ہوہر اس محاذ پر ایکشن میں دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے،وہ ہونے والے عام انتخابات کو روکنے کے خلاف محاذ آرا ہیں،وہ 7؍اکتوبر کے حملے کے خلاف انکوائری کمیشن کو روکنا چاہتے ہیں،وہ اس معاہدے کوروک رہے ہیں جس سے 59زندہ یا مردہ یرغمالی اسرائیل واپس آئیں گے۔اموس ہیرل کے مطابق نیتن یا ہو کے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی حالیہ بمباری میں جس طرح سے بے گناہ مارے گئے ہیں، وہ نسل کشی ہے اور اسی معاملے میں نیتن یاہو عالمی عدالت میں مجرم قرار دیے جاچکے ہیں مگر چونکہ اب امریکہ کے صدر ٹرمپ ہیں جو جوبائیڈن سے کہیں زیادہ صہیونی ہیں،اس لیے اسے کسی طرح کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا ہے لیکن تاریخ بڑی سفاک ہوتی ہے۔بے گناہوں کے قتل پر یہ دونوں کبھی معاف نہیں کیے جائیں گے اور دوسری طرف حماس کی پامردی اور استقلال کو ان قاتلوں سے کہیں زیادہ تاریخ میں احترام کی نظر سے دیکھاجائے گا۔دنیا کی کوئی بھی قوم غاصب سے لڑے اور اس کا مقابلہ کیے بغیر اپنے وجود کو نہیں بچا سکی ہے اور حماس آج یہی کر رہی ہے۔