اسلام آباد (ایجنسیاں) : پاکستان میں شہباز شریف کی حکومت نے ایک بار پھر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی کا ایک سونامی آنے کا خطرہ ہے۔ ماہرین نے سبسڈیز ختم کرنے کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے کیا، جو عمران خان کی حکومت نے کیا تھا۔ لیکن ملک میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر عالمی مالیاتی ادارے عوام کو دی جانے والی سبسڈیز کے ہی دشمن کیوں ہیں؟ انہیں اور کئی سبسڈی نظر کیوں نہیں آتی۔کراچی سے تعلق رکھنے والی نیو لبرل معیشت کی ناقد ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ حکومت اس سال مئی میں180 اعشاریہ 70 روپے کی سبسڈی پٹرول پر اور 86 اعشاریہ71 کی سبسڈی ڈیزل پر دے رہی تھی، ’جو بعد میں56 اعشاریہ 7 ہو گئی اور اب صرف 2 اعشاریہ30 روپے ہے۔ اب اس سبسڈی کے خاتمے سے پیداواری لاگت آسمان کو چھوئے گی، جس کا نتیجہ صنعتوں اور زراعت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔‘ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کبھی بھی جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے کی بات نہیں کرتا، ’5 فیصد جاگیردار گھرانے 64 فیصد زمینوں پر قابض ہیں۔ لیکن ان پر ٹیکس نہیں لگتا کیوں کہ ہماری اشرافیہ آئی ایم ایف کے لیے کمیشن ایجنٹس کے طور پر کام کرتی ہے۔‘
ڈاکٹر عذرا کے مطابق آئی ایم ایف کچھ اشیا کی درآمد پر پابندی سے نہ خوش ہے، ’لیکن لگژری اشیا کی درآمد کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔‘معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ سبسڈیز کے ختم ہونے سے بے روزگاری کا ایک طوفان آئے گا، جس سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’90 کی دہائی میں ہمارے ملک میں غربت بہت بڑھی تھی کیونکہ 5ہزار صنعتیں بند ہوئی تھیں اور 20 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے تھے۔ اب ان سبسڈیز کے خاتمے سے پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو گا، جس سے صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہوں گی اور بھوک وافلاس بڑھے گا۔‘
تاہم کچھ معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ سبسڈیز اور خصوصاً عمومی سبسڈیز معیشت کے لیے بہتر نہیں۔ ماضی میں وزارت خزانہ سے منسلک رہنے والے خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ حکومت عمومی سبسڈیز دے رہی تھی، جس سے پیسے والے افراد کو بھی فائدہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’پاکستان نے مارچ میں 30 ارب روپے کی عمومی سبسڈی دی، جو جون میں بڑھ کر 120ارب روپے کے قریب ہو گئی اور اب تقریباً زیرو ہے۔ پاکستان میں بہت سارے امیر افراد پٹرول کی ایک بڑی مقدار استعمال کرتے ہیں اور عمومی سبسڈی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے اس کو ختم کرنا مناسب تھا۔‘خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ تاہم حکوت اب بھی لاکھوں افراد و گھرانوں کو ٹارگیڈڈ سبسڈی دے رہی ہے، ’اس طرح کی سبسڈی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کو قائل کیا جا سکتا ہے لیکن عمومی سبسڈی دینا مشکل ہوتا ہے۔‘
پاکستان کی معاشی مشکلات کو بہت سارے ناقدین آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس عالمی مالیاتی ادارے کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں معاشی مسائل، مہنگائی اور غربت بڑھی ہے۔
لیکن خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ داری عالمی حالات پر بھی ہے، ‘کورونا کے بعد معیشت بحال ہوئی، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ وہ اسی ڈالرز فی بیرل سے 120 ڈالرز فی بیرل ہو گیا۔ اس سے دنیا بھر میں ممالک متاثر ہوئے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ لیکن پاکستان میں یوکرین کی جنگ کی وجہ سے بھی معاشی حالات متاثر ہوئے ہیں۔ تو آئی ایم ایف پر الزام ڈالنا مناسب نہیں۔‘
واضح رہے کہ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں کچھ عرصے پہلے دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستان امیر طبقے کو 17 بلین ڈالرز سے زیادہ کی سبسڈیز یا مراعات و سہولیات دیتا ہے۔ ملک کے ارب پتی جاگیر دار کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جانوروں کی خوراک، چاکلیٹ، درآمد شدہ مکھن اور لگژری اشیاء پر بھی اربوں ڈالرز خرچ کرتی ہے۔ اس درآمد سے اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس طبقے مستفید ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی کا مخالف کیوں؟،پاکستان میں اٹھی آواز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS