ڈاکٹر برہمدیپ الونے
حماس اسرائیل تنازع شروع ہونے کے بعد سے ہی پاکستان میں اسرائیل مخالف مظاہرے بڑے پیمانہ پر ہورہے ہیں۔ پاکستان میں آئندہ فروری میںالیکشن ہیں اور سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے اسلام آباد میں مجلس اتحادِ اُمہ پاکستانی تنظیم کے ذریعہ ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں شرکت کرتے ہوئے حماس چیف اسمٰعیل ہانیہ نے پاکستان کو بہادر ملک بتاتے ہوئے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حماس کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔
کچھ دنوں قبل پاکستان کی مذہبی پارٹی جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قطر میں حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہانیہ اور سابق سربراہ خالد مشعل سے ملاقات کی تھی، جس میں کشمیر کا مقابلہ فلسطین سے کیا گیا تھا۔ غور طلب ہے کہ پاکستان تاریخی اعتبار سے فلسطینیوں کے حق میں رہا ہے اور اس نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کے حملوں کے درمیان اسلام آباد میں فلسطینی سفیر نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی، جنہوں نے فلسطینیوں کے تئیں حمایت کا اظہار کیا تھا۔ دراصل حماس کے حق میں پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کا رُخ بے حد جارحانہ نظر آرہا ہے اور ان ریلیوں میں امریکہ کی مخالفت بھی سنائی دے رہی ہے۔ حالاں کہ پاکستان کی اہم سیاسی پارٹیاں ’رکو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر عمل کررہی ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں کو احساس ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے اور بعد میں بھی انہیں امریکی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ سعودی عرب پر انحصار کے سبب بھی کنفیوژن کی صورتحال قائم ہے۔ سعودی عرب حماس کو پسند نہیں کرتا ہے اور اس لیے وہ اسرائیل کے تعلق سے جارحانہ نہیں ہے۔ ان سب کے درمیان یہ خیال آتا ہے کہ ہندوستان کے لیے حماس اور پاکستان کے بڑھتے رشتے کتنی مشکلیں پیدا کرسکتے ہیں۔ حماس اپنی مدد کے لیے پاکستان سے مجاہدین کی فوج چاہتا ہے۔ مجاہدین کی یہ فوج بھارت کے سیکورٹی خدشات میں اضافہ کررہی ہے، لیکن پاکستان اس سمت میں آگے بڑھنے کی جرأت کرنے کی حالت میں بالکل نہیں ہے۔ پاکستان کا فلسطینیوں کے ساتھ تاریخی اور جذباتی تعلق ہے، لیکن اس کے اسٹرٹیجک اور اقتصادی مفادات امریکہ، یوروپی یونین اور دیگر ممالک سے وابستہ ہیں۔ پاکستان نہ صرف ان ممالک کو ایکسپورٹ کرتا ہے، بلکہ ان سے اسے سبسڈی بھی ملتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اقتصادی بحران کے دوران ان میں سے کسی کو ناراض کرنا نہیں چاہے گا۔ امریکہ اور یوروپ کے کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، ان حالات میں پاکستان کی فوج حماس کے ساتھ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔حال میں پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک بیل آؤٹ پیکیج ملا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی حالات بے حد خراب ہیں۔ اسے ایکسپورٹ سے ہونے والی آمدنی میں 60فیصد حصہ داری کپڑوں کی ہے، لیکن ملک کی کپڑا فیکٹریوں میں سے تقریباً ایک تہائی بند ہوگئی ہیں۔ بجلی دوگنی مہنگی ہوگئی، فیکٹریاں پیداوار کی لاگت بڑھنے کا بوجھ نہیں اٹھا پارہی اور بند ہورہی ہیں۔ اقتصادی بحران اور نوکری کے مواقع نہ ہونے کے سبب ہزاروں پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ گزشتہ سال تباہ کن سیلاب کے سبب پاکستان میں بڑے پیمانہ پر زرخیز زمین تباہ ہوگئی تھی۔ ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ اس سے تقریباً 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ وہیں آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ پاکستان پر چین کا تقریباً 30ارب ڈالر قرض ہے۔ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ مہم کے تحت چین یہاں سی پی ای سی میں 60ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اب پاکستان کو بھی یقین نہیں ہے کہ اس سرمایہ کاری کے سبب وہ اتنی کمائی کرپائے گا کہ چین کا قرض ادا کرپائے۔
پاکستان کو سیکورٹی کے تعلق سے بھی بحران کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اسے سخت شرعی قانون نافذ کرنے کی چاہت رکھنے والے اسلامی شدت پسندوں کے مسلسل حملے اور خودکش دھماکے بھی برداشت کرنے پڑے ہیں۔ پاکستان کی دہشت گرد تنظیمیں متحدہ محاذ بنارہی ہیں اور پاکستان کی فوج کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہیں۔ بلوچستان صوبہ میں سرگرم بلوچ شدت پسند تنظیموں میں انضمام کے لیے بات چیت جاری ہے۔ بلوچستان میں اس وقت شدت پسند تنظیموں میں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلیکن گارڈ، بلوچ لبریشن ٹائیگرس، بلوچ نیشنلسٹ آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی نام کی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ یہ سبھی شدت پسند تنظیمیں بلوچستان کی آزادی چاہتی ہیں اور اگر سب کا انضمام ہوجاتا ہے تو پاکستان کی فوج پر حملے کی شدت میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری مشکل میں آجائے گی اور اس سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
لاکھوں افغان پناہ گزیں اب پاکستان سے واپس افغانستان جارہے ہیں، اس سے طالبان اور پاکستان کے رشتوں میں زبردست کشیدگی دیکھی جارہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر زبردست کشیدگی ہے اور خیبرپختونخوا کے علاقے سوات، جنوبی وزیرستان، مہمند، باجوڑ، اور کزئی، درّہ، آدم خیل اور دوسرے علاقوں میں کئی طالبانی گروپ آزادانہ طور پر سرگرم ہیں۔ یہ سارے گروپ ’تحریک طالبان پاکستان‘ نام کا ایک گروپ بنانے اور ایک سسٹم کے اندر کام کرنے پر متفق ہوچکے ہیں۔ ٹی ٹی پی بننے کے بعد پاکستان میں کئی بڑے دہشت گردانہ حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی دائیں بازو کی پارٹیاں،بھلے ہی حماس کے حق میں آواز بلند کریں، حماس کو ہتھیار، فوجی مدد یا مجاہدین کی فوج پر پاکستانی حکومت اور فوج خاموش ہی رہیں گی۔ فروری میں ہونے والے الیکشن میں فلسطین کو امداد کے ایشو پر اگر مذہبی پارٹی جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان اقتدار میں آجاتی ہے تو یہ پاکستان میں دہشت گرد جماعتوں کے لیے ’سنجیونی‘کی طرح ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے لیے بھی تب حالات پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔حالاں کہ اس کی امید کم ہی ہے کیوں کہ پاکستان میں الیکشن وہاں کی فوج کی قیادت میں ہوتے ہیں اور وہ پہلے سے ہی بدحال ملک کو اندرونی بحران میں مبتلا کرنے سے پرہیز کرے گی۔
rvr