پاکستان: بندوق کی نوک پر جمہوریت کا قیام؟

0

مملکت خدا داد پاکستان میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے قیام کے لیے انتخاب ہوچکے ہیں۔ حکومت نے کسی بھی تشدد اور تخریبی کارروائی کے پیش نظر موبائل اور انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ چار ریاستوں اور مرکزی حکومت کے لیے پولنگ صبح 8بجے شروع ہوگئی۔ اس الیکشن میں تین اہم پارٹیاں برسرپیکار ہیں۔ اس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)پاکستان پیوپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ الیکشن ہر مرتبہ کے الیکشن کی طرح تنازعات کا شکار ہے۔ ایک طبقہ کا الزام ہے کہ فوجی حکمراں اصل میں اس انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فوج کا براہ راست نشانہ سابق کرکٹر عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو پچھلے دنوں معزول کردیا گیا تھا اور نواز شریف و آصف علی زرداری کی قیادت والی پارٹیوں نے متحد ہو کر حکومت بنائی تھی۔ اپنی حکومت گرنے کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے معزول پارٹی تحریک انصاف نے جب احتجاج کیا تو ا س کا نشانہ فوجی ادارے اور دفاتر تھے۔ یہیں سے پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان در پردہ لڑی جانے والی بالادستی کی جدوجہد کھل کر سامنے آگئی۔
فوج کو اپنے اداروں کے خلاف کارروائی کا بہانا مل گیا اور فوج نے مظاہرین کو بہت بری طریقے سے زدوکوب کیا اور تمام بڑے لیڈروں کو اشتعال انگیزی اور ملک میں بدامنی پھیلانے جیسے سنگین الزامات کے تحت ماخوذ کرلیا گیا۔ اگرچہ پی ٹی آئی پر کئی قسم کے الزامات ہیں جن میں مالی بے ضابطگیوں اور توشہ خانہ چوری جیسے امور شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈر شاہ محمود قریشی اور خود عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور تحریک انصاف کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان کو خاص طور پر نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ پارٹی کے لیڈروں اور عام کارکنان پر سیکڑوں مقدمات عائد کردیے گئے ہیں اور القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ کیس میں الیکشن کے دوران پولیس اور فوجی منتظمین پی ٹی آئی کے لیڈروں کی دھڑ پکڑ کررہے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ کارروائی ان لوگوں کے خلاف ہورہی ہے جنہوںنے احتجاج کے دوران فوج اور دیگر دفاعی اداروں کو نقصان پہنچایا۔ عمران خان کو دو کیسوں میں سزا ہوچکی ہے۔ اس لیے 21اکتوبر کو پاکستان کے الیکشن کمیشن نے انہیں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان کے خلاف غیر منصفانہ برتائو غلط اطلاعات فراہم کرنا، غلط اعلان کرنے کے جرم جیسے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ لہٰذا وہ الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے تحریک انصاف انتخابات لڑ رہی ہے اور عوام تک اپنی بات پہنچا رہی ہے۔ یہ الیکشن کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ عمران خان کے زوال کے بعد مسلم لیگ(ن)کے لیڈر نواز شریف کو بڑی راحت ملی اور ایسا لگتا ہے کہ کسی خاص حکمت عملی کے تحت نواز شریف کے خلاف مقدمات یا تو واپس لیا گیا یا ان کو باعزت بری کیا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف وطن واپس لوٹ آئے ہیں اور وہ پورے زوروشور کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ نواز شریف کے خلاف بدعنوانیوں کے سنگین الزامات تھے۔ ان کو ان ہی الزامات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ ان کو 7سال کی قید کی سزا ہوئی تھی مگر 12ماہ کے قید کے بعد ان کوعلاج کے لیے لندن بھیج دیا گیا۔ جہاں ان کا علاج ہوا ۔ ابتدائی طور پر نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ عدالتی کارروائی اور سمن نظرانداز کرنے کی پاداش میں ان کو 2021 میں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔ مگر پاکستان میں اتھل پتھل کے بعد اکتوبر 2023میں جب ان کو مختلف مقدمات میں ضمانت مل گئی تو ان کو وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ اس طرح نواز شریف تقریباً چار سالوں تک رضاکارانہ جلا وطنی جھیلتے رہے۔ بعد میں 21اکتوبر کو وہ وطن لوٹے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کو مختلف مقدمات میں راحت ملنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ 9جنوری 2024کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ان کو جوتا عمر الیکشن لڑنے کا نااہل قرار دیا گیاتھا وہ رد کردیا گیا ہے۔ 6کے مقابلے میں ایک جج کی رولنگ میں نواز شریف کو بڑی راحت ملی۔ ان کو 2017میں پناما پیپر کیس میں یہ سزا دی گئی تھی۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یہ فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف کا سیاسی کریئر ختم ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے نواز شریف کے لیے یہ ایک بڑا جھٹکا تھا۔
پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں مختلف آرا ہے۔ ایک بڑے طبقے کا خیال ہے کہ نواز شریف اور اس سے قبل کئی مرتبہ فوج کے عتاب کا شکار رہے ہیں۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان شدید اختلافات تھے اور یہ دونوں کئی مرتبہ ایک دوسرے کو نیست ونابود کرنے کی کوششیں کرچکے تھے۔ پرویز مشرف کاپچھلے دنوں دیار غیر دبئی( متحدہ عرب امارات) میں انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے خلاف بھی پاکستانی عدالت نے کئی سنگین الزامات میں سزا ئے موت مستحق قرار دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی موت کے بعد بھی عدالت نے ان کو ایک معاملہ میں سزائے موت سنائی تھی۔ مملکت خدا داد میں کئی ایسے مقدمات مل جائیں گے جوپاکستان کے سیاسی ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ وہ لمحہ کیسے فراموش کرسکے گی ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعہ ہی مقدمہ چلا کر تختۂ دار چڑھا دیا گیاتھا۔ اسی طرح فوج اور سیاسی جماعتوں اور عدالتوں کے درمیان کشمکش نے ملک کو ایک ایسے بحران سے دوچار کررکھا ہے جس سے نجات حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی فوج کسی بھی حالت میں اقتدار پر اپنی گرفت کمزور نہیں کرنا چاہتی ہے۔ ایک الزام یہ ہے کہ فوج مختلف سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس کو اس بات کا گھمنڈ ہے کہ وہی ملک کو متحد رکھ سکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف سیاسی پارٹیاں فوج سے پنگا لے کر اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ پائی ہے، اس میں سب سے بڑی اور تازہ ترین مثال عمران خان کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسی کشمکش کی وجہ سے تحریک انصاف کے لیڈر کی اہلیہ کے خلاف سزا سنائی گئی ہے۔ توشہ خانہ والے کیس میں عمران اور ان کی ہلیہ سزا یافتہ مجرم بن چکے ہیں۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف کا اقتدار میں آنا تو دور پاکستانی سیاست میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ یہ الیکشن ان معنوں میں دلچسپ ہے کہ دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیوپلز پارٹی مرکزی حکومت میں شامل تھیں اور شہباز شریف پیوپلز پارٹی کی حمایت کی وجہ سے وزیراعظم تھے۔ یہ دونوں پارٹیاں آپس میں متصادم ہیں اور کئی ریاستوں میں دونوں میں براہ راست مقابلہ ہے۔

مملکتِ خدا داد کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ کے خدوخال

پاکستان میں چار ریاستوں اور مرکزی حکومت کے لیے پولنگ ہوچکی ہے۔ پانچ سال کی مدت کے لیے ہونے والا یہ الیکشن ایک نگراں انتظامیہ یا عبوری حکومت کے تحت ہورہا ہے۔
336سیٹوں والی قومی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے 134 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں 10نشستیں اقلیتوں اور 60سیٹیں خواتین کے لیے محفوظ ہیں۔ ریاستی اسمبلیاں خبیر پخونخواں ، پنجاب سندھ اور بلوچستان میں بھی انتخابات ہورہے ہیں۔
پاکستان میں پارلیمنٹ کے دو ایوانوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ ایوان بالا ہے اور اس کا الیکشن بالواسطہ ہوتا ہے۔ سینٹ کے ممبران ریاستی اسمبلیوں سے منتخب ہوتے ہیں، سینٹ کے ممبران کی مدت کار چھ سال ہوتی ہے۔ ریاستی اسمبلیوں قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران صدرکے عہدے کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی سیاسی حصہ داری کو یقینی بنانے کے لیے علیحدہ سے ریزرویشن کاالتزام ہے۔ جیسا کہ اوپر بتا یا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں 60سیٹیں عورتوں کے لیے محفوظ ہیں، اسی طرح بلوچستان کی 65سیٹوں میں سے 51پر براہ راست منتخب ممبران ہوتے ہیں، 11سیٹیں خواتین اور 3اقلیتو ں کے لیے محفوظ ہیں۔ اسی طرح خبیر پختونخواں کی 124سیٹوں میں سے 29براہ راست منتخب جنرل سیٹیں ہیں 22عورتوں اور 3اقلیتوں کے لیے محفوظ ہیں۔
پنجاب کی 371سیٹوں میں سے 297جنرل ہیں ،66عورتوں اور 8اقلیتوں کے لیے محفوظ ہیں، صوبۂ سندھ میں 168سیٹیں ہیں ، 130جنرل اور 29عورتوں اور 9اقلیتوں کے لیے مختص ہیں۔
راجدھانی اسلام آباد کا انتظامیہ بالکل علیحدہ ہے اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر اور گلگٹ بلوچستان اس انتخابی عمل میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ ان دونوں خطوں میں الگ نظام رائج ہے۔

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS