🖊️:امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
آج پورا ملک ہندوستان کورونا بحران کا شکار بن چکا ہے، کورونا کا قہر ملک ھند پر ٹوٹ چکا ہے، افرا تفری کا ماحول بن چکا ہے، لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں، اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی مدد میں نظر آرہے ہیں،اور اس بڑھتے ہوئے قہر کا سامنا کرتے نظر آرہے ہیں۔
لیکن یہ قہر لوگوں کو آنکھ دکھاتا ہے جارہا ہے، انہیں بے بسی کا سہارا بناتا جارہا ہے، لوگوں کی جانوں سے کھیلتا ہے جا رہا ہے۔
قارئین! آج ملک کی حالت یہ بن چکی ہے کہ بچہ اپنی ماں کے گود ہی میں دم توڑے جارہا ہے، آکسیجن کی قلت پر جوان تڑپتا نظر آرہا ہے، پورا کا پورا ہسپتال خالی نظر آرہا ہے صرف اور صرف اس وجہ سے کہ انکے پاس آکسیجن کی کمی ہے، دہلی ہو یا بمبئی، یوپی ہو یا ایم پی، سارے کے سارے آکسیجن کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔
آج کورونا کی اس ننگی ناچ پر آکسیجن کی ایسی ہاہاکاری مچی ہے کہ لوگ اپنے مریضوں کو لیکر در بدر بھٹک رہے ہیں، ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، حکومت کو پکارے جا رہے ہیں پر آکسیجن کی کمی پوری نہیں ہو پارہی ہے۔
بعض ایسے بھی ہسپتال دیکھنے میں آئے ھیں جنہوں نے باقاعدہ پوسٹر لگا دیا اور اعلان کردیا ہے کہ براہ کرم وہ اس ہسپتال میں نہ آئیں، کیوں کہ یہاں آکسیجن کی قلت ھے۔
عزیز قاری ! آج کورونا کے قہر نے ملک کی ایسی حالت بنادی ہے کہ آج لوگ اپنے ہی مردوں سے بھاگے جارہے ہیں، آج لوگ اپنے ہی گھر کے جنازے سے کترا رہے ہیں، بہت سے ایسے معاملات بھی نظر آے ہیں جہاں ہندو مذہب کے ماننے والوں کا انتم سنسکار مسلمانوں نے کیا ہے۔
آج مسلمان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر غیروں کی جان بچانے میں لگا ہوا ہے، آج مسلمان بلا تفریق مذہب و ملت آکسیجن کی فراہمی میں لگا ہوا ہے، لیکن پھر بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو ہندو مسلم کو لڑانے میں مصروف ہیں، انکے درمیان تفریق کا راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلمانوں کو اس ملک سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں جہادی اور آتنکوادی کہہ رہے ہیں،
لیکن قربان جاو مذہب اسلام پر ، قربان جاو مسلمانوں کے جذبات پر کہ وہ ایسی حالت میں بھی بھائی چارگی کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔
لیکن ان نفرت بازوں کا کیا جو ہندو مسلم کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی جرأت کر رہے ہیں، اور ان سے رشتہ ناطہ خود بھی توڑ رہے ہیں اور لوگوں سے بھی توڑوا رہے ہیں۔
اور ان نفرت بازوں کا کیا؟ جو مسلم کے بنی ہوئی اشیا سے کتراتے تھے، ان کی کمپنی سے بنی اشیاء کو ناقابل قبول سمجھتے تھے، جو آج بھی مسلمانوں کے ہاتھ کی بنی اشیاء کو قبول نہیں کرتے، انکی ہاتھوں سے بنی پزاء کو ٹھکراتے ہیں۔
کیا اگر وہ اس مہاماری کے لپیٹ میں آجائیں تو کیا وہ اس آکسیجن کو جو محمد کے شہر سے آرہا ہے اسے استعمال نہیں کریں گے؟
ان نفرت بازوں کا کیا جو مسلمانوں کے خلاف آگ اگل رہے ہیں جیسے نرسنگھا نند سرسوتی جو کہتا ہے کہ اس ملک سے مسلمانوں اور اسلام کو ختم کرنے کا میرا مقصد ہے، میری لڑائی ان ہی آتنکوادیوں سے ہے، کیا اگر وہ خود اس قہر کے لپیٹ میں آجائے تو کیا وہ اس محمد کے آئے ہوئے شہر کا آکسیجن قبول نہیں کرے گا؟
اسی طرح وہ شخص جو مسلمانوں کو جلاوطن کر دینے کی بات کردیتا ھے، جسکا نام کپل شرما ہے کیا اگر اسکی وہ یا اسکا گھرانہ اس قہر کے لپیٹ میں آجائے تو کیا وہ اس آکسیجن کو قبول نہیں کرے گا؟ اور یوں ہی اپنا دم توڑ دے گا؟
اسی طرح اور بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے دور رہو ان سے خرید وفروخت کو ختم کرو، ان سے سارے تعلقات کو قطع کرو، کیا اگر انہیں اس آکسیجن کی ضرورت پڑ گئی تو کیا وہ اسے استعمال نہیں کریں گے اور یوں ہی وہ مر جائیں گے؟
ارے قربان جاؤ امت محمدیہ پر اور قربان جاؤ اھل اسلام پر جو خود کی پرواہ کئے بغیر تمہیں بچانے کی کوشش کرہے ہیں، الفت و محبت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں مسلمانوں سے بھی کہنا چاہوں گا کہ مسلمانوں اب ذرا ٹھنڈی سانس لو اور خدا کا شکر ادا کرو کہ اب یہود و نصارٰی ہماری مدد نہیں کرینگے بلکہ اب تو محمد عربی کرم کریں گے، کیونکہ اب آکسیجن محمد کے شہر سے آرہا ہے، وہ شہر جہاں حضور کے قدم مبارک پڑے تھے، وہ شہر جہاں حضور کی ولادت باسعادت ہوئی تھی اور شہر جہاں سے اسلام کا بول بالا ہوا تھا اب اسی شہر سے دوا آرہی ہے۔
خبر ہے کہ کورونا کی اس نئی تباہ کن لہر میں آکسیجن گیس کی قلت کے شکار ہندوستان کو سب سے پہلے جس نے مدد کا ہاتھ بڑھایا وہ ہے محمد کا شہر وہ ہے سعودیہ عرب، عرب نے 80 میٹرک ٹن آکسیجن بھیجوا دی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی وزارت صحت کی جانب سے ہندوستان کے لیے 80 میٹرک ٹن آکسیجن روانہ کردی گئی ہے۔ آکسیجن کی یہ کھیپ سعودی عرب سے دو ہندوستانی کمپنیوں کی توسط سے فراہم کی جارہی ہے۔سعودی عرب میں ہندوستانی سفارت خانے نے فرمانروا شاہ سلمان اور وزارت صحت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ہر طرح کی مدد، حمایت اور تعاون پر دلی طور پر معترف ہیں۔
اور اس خبر کو سنتے ہی وہ شعر یاد آتا ہے جسے کسی نے کیا ہی خوب کہا تھا_ کہ
آؤ گناہ گاروں چلو سر کے بل چلیں،
ہر درد کی دوا ہے محمد کے شہر میں۔