ہماری محبتیں اور نفرتیں دونوں نمائشی ہیں!

0

عبدالسلام عاصم

ہماری محبتیں اور نفرتیں دونوں نمائشی ہیں۔ نمائشی محبتوں کا اظہار قومی یکجہتی کے اسٹیج پر اخباری فوٹوگرافروں کے سامنے ہوتا ہے اور نمائشی نفرت کا اظہارمعبدوں، بازاروں اور سڑکوں پر خود کش دھماکوں اور ماب لنچنگ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں منجملہ اور خرابیوں کے ایک خرابی یہ بھی دخیل ہے کہ ہر زیادتی کرنے والا دوسرے کی نظر میں ’’ ظالم‘‘ اور اپنی سوچ کے حساب سے’’ حق‘‘ پر ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم سے محروم بیشتر اقوام ایک دوسرے کے بارے میں اطلاعات سے زیادہ افواہوں پر مبنی معلومات رکھتی ہیں۔
اپنی سنی ہوئی تمام کہانیوں پر یقین اور دوسروں کے ہر افسانے پر شک سے پیدا ہونے والے اس ماحول میں بدقسمتی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ برے نہیں بلکہ معصوم ہوتے ہیں، وہ بھی ایک دوسرے کو حقیقی طور پر جاننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال عین عید کے دن سامنے آئی۔ میرے ایک ہندو دوست نے وہاٹس ایپ پر عید کی صوری مبارکباد بھیجی۔ تصویر میں ایک مسجد کے عکس کے ساتھ لکھا تھا ’’عید الاضحی مبارک‘‘۔ مجھے ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔ ہنسی تصویر دیکھ کر اور افسوس اس بات پر کہ ہم ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ایک سے زیادہ تہواروں سے پوری طرح واقف نہیں۔ میں نے اپنے اُس ساتھی کو یہ بتانے کیلئے فون کیا کہ تصویر کا انتخاب غلط ہوا ہے۔ اس نے جواب میں مجھے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں، اس میں اتنی ہی یا ایسی ہی جانکاری ہمیں ایک دوسرے سے آگاہ کم کرتی ہے اور محتاط زیادہ بناتی ہے۔ اُس نے یہ بات اس قدر کرب کے ساتھ کہی کہ ہم دونوں تقریباً رو پڑے۔ پھر جب ملے تو ایسے گلے لگے جیسے عید منانے کے بجائے کسی کی موت پر ایک دوسرے کو ڈھارس بندھا رہے ہوں۔ اصل میںیہ اُس تعلق کی موت ہے جو دیر وحرم کے بیچ بے ہنگم اور غیر صحت مند فاصلے کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ اِس لاش کو دفنایا جائے یا نذر اتش کیا جائے! اس پر بھی موجودہ حالات میں شاید کبھی اتفاق رائے نہیں ہوپائے گا۔
ایک زمانہ تھا کہ کلکتے میں درگا پوجا کی علاقائی ثقافتی تقریبات کی کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب دوستوں کی مصروفیت اور فرصت کی بنیاد پر ہوتا تھا، کسی کی بائی ڈیفالٹ مذہبی شناخت پر نہیں۔ پوجا پنڈال سے باہر بھی کچھ مورتیاں نصب کی جاتی تھیں جو مذہبی کرداروں کی نہیں کامیاب فلم اداکاروں کی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سنجے دت اور سنجے خان کا کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ امید ہے وہاں اب بھی یہ سلسلہ جاری ہوگا۔ چار روزہ تقریبات میں چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی تھیں۔ اسی طرح عید، دیوالی اور کرسمس کی خوشیاں بھی سڑکوں پر دور دور تک بکھری نظر آتی تھیں۔اِس بین مذاہب رواداری کیلئے ناچیز نے نہ توکبھی کوئی تحریک چلتے دیکھی اور نہ اِس اختلاط سے دیر و حرم میں سے کسی کی رونق میں کوئی کمی آئی۔ ایسا نہیں کہ نظر لگانے والے اُس زمانے میں موجود نہیں تھے،لیکن رواں دواں زندگی میںنظریاتی خلل کیلئے جس جہل کی ضرورت تھی وہ نایاب تو نہیں تو اتنی کمیاب ضرور تھی کہ بات بگاڑنے والوں کے مذموم عزائم کی حسبِ خواہ تکمیل نہیں ہوپاتی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سابقہ صدی کی ساتویں دہائی میں ضلع ہوگلی میں چاپدانی کے پلتاگھاٹ کے کنارے ایک بار ایک خاتون کی لاش پائی گئی تھی۔ قتل، خودکشی یا پھر کسی حادثاتی موت کی تحقیق سے زیادہ نام نہاد ذمہ دار قسم کے مقامی لوگوں کو متوفیہ کی مذہبی شناخت سے زیادہ دلچسپی نظر آئی۔میری عملی زندگی میں یہ پہلا تجربہ تھا جب میں نے لوگوں کو انسانی ہمدردی سے زیادہ سماجی ضرورت کی تکمیل کیلئے پریشان دیکھا۔لاش چونکہ عورت کی تھی، اس لیے کسی نے زیادہ چھیڑنے کی جرأت نہیں کی۔ اس بیچ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ متعلقہ حکام پوسٹ مارٹم کیلئے لاش اٹھا لے گئے تو ایک معصوم رکشے والے نے برجستہ یہ کہتے ہوئے مذہبی شناخت کے حوالے سے لوگوں کی پریشانی کا بوجھ زمیں پر دے مارا کہ ’’ چلو بھئی کہانی ختم، مردہ مردہ خانے گیا‘‘ اور پھر اس نے سواری کیلئے روایتی آواز لگائی ’’اینگس، بھدریشور، تیلنی پاڑہ۔۔۔‘‘ بظاہر یہ ایک واقعہ ہے لیکن اس میں حکومت اور عوام کے تعلق سے ایک رکشے والے کا بے ساختہ اظہار اپنے اندر بہت کچھ مفہوم رکھتا تھا۔افسانہ نگار اور شاعر مرحوم شوکت عظیم نے جو اس موقع پر ہم لوگوں کے ساتھ موجود تھے، اس واقعے کو اپنی ایک کہانی کا سبق آموز حصہ بنایاتھا۔
ان واقعاتی تذکروں کی روشنی میںموجودہ حالات پر غور کیا جائے تواِس نتیجے پر بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کے حکومتی نمائندے سماج کی ذہنی حالت کی ہی ترجمانی کرتے ہیں۔ہمارا معاشرہ اس لحاظ سے سخت آزمائش سے گزر رہا ہے۔عام آدمی جو خواص کی خباثتوں کی قیمت چکاتا ہے، اُس کی دلی خواہش ہے کہ موجودہ تشویشناک صورت حال کو بدلنے کے لیے سماج اور حکومت ایک دوسرے سے لازمی اشتراک کریں۔ اگر ایسا نہیں ہو پارہا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ وہی ہے جس کا اظہار زیر مطالعہ مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے کہ ہماری محبتیں اور نفرتیں دونوں نمائشی ہو کر رہ گئی ہیں۔ نمائشی محبتوں کے اظہار کیلئے نام نہاد ملی، سماجی، تہذیبی اور سیاسی نمائندے اگر قومی یکجہتی کے اسٹیج پر اخباری فوٹوگرافروں کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف نمائشی نفرت کا اظہار آئے دن خود کش دھماکوں اور ماب لنچنگ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے سماج کو جب تک ان دو عناصر کے غیر معلنہ اشتراک سے نجات نہیں ملے گی تب تک ایک صحت مند معاشرہ سامنے نہیں آ سکے گا۔
یہ تبدیلی کیسے آئے گی، اس پر بے لاگ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل بہرحال اُن لوگوں یا حلقوں سے ممکن نہیں جو امکانات اور اندیشے دونوں کو کیش کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔یہ احساس اُن سبھی لوگوں کو ہے جو اِس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اُن کا خاموش رہنا بھی اُن کی سلامتی کا پوری طرح ضامن نہیں کیونکہ تشدد کی زد میں آنے کیلئے نام کی شناخت کافی ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو جان لینے اور سمجھ لینے کے بعد اب پہلی فرصت میں غیر اشتہاری جذبہ رکھنے والے سماجی ذمہ داروں اور شاملِ حکومت خوش خیالوں کی ایک ٹیم بننی چاہیے۔ یہ ٹیم اکثریت اور اولیت دونوں پر مرحلہ وار اپنی فکری گرفت مضبوط کرے اور اندیشوں کی تجارت کرنے والوں کی اس طرح حوصلہ شکنی کی جائے کہ وہ بدکنے کے بجائے اچھی صلاح اور تجاویز سن کر راحت محسوس کریں۔
اس طرح ایک ایسی تبدیلی کی راہ مرحلہ وار ہموار کی جاسکتی ہے جس پرچلنے والوں کو زندگی سے زیادہ کوئی شے قابلِ احترام نظر نہ آئے۔ اس راہ پر نہ توکسی کی حرکت سے (بھگوان) رام کا نام بدنام ہو اورنہ کوئی شانِ محمد(صلعم) میں اس لیے گستاخی کرے کہ اُسے متعلقہ فرقے سے شکایت ہے۔ نفرت کی موجودہ لہر کو ختم کرنے کیلئے اب لازمی ہوگیا ہے کہ لوگ اپنی ایسی شناختوں کے باوجود جو شعوری طور پر اُن کا انتخاب نہیں، سب کے ساتھ حال میں جینے کا ہنر سیکھیں۔ ماضی کو ماضی سے زیادہ اہمیت نہ دیں اور آنے والے کل کیلئے اپنے آج سے اُمید افزا استفادہ کریں۔نئی نسل اس ادراک کے ساتھ کہ تاریخ پر نظرثانی کے نام پر تاریخ گڑھنے کی کوششوں کی وجہ سے ہی علم سے محروم پورا برصغیر انسانی زندگیوں کیلئے مخدوش ہو گیاہے،اپنے فکر و عمل کی ایسی راہ ہموار کرے جو کائنات کی تخلیق کے مقصدِکُن سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS