پروفیسر اسلم جمشید پوری
عجیب ہیں یہاں کے لوگ۔ ہندوستان تو سارے جہاں سے اچھا ہے، ہم ہندوستانیوں نے اسے مختلف رنگوں میں رنگ دیا ہے۔یہاں کا آئین،سبھی مذہب کے لوگوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ہر مذہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہیں بنا سکتے ہیں۔ کوئی بھی لباس پہن سکتے ہیں۔ کچھ بھی کھانا کھا سکتے ہیں۔ اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرسکتے ہیں۔ہاں کسی کو بھی اپنا مذہب اپنانے پر دبائو نہیں بنا سکتے اور کسی کو مجبور نہیں کرسکتے۔اس ملک کا آئین سبھی مذاہب کی حفاظت کا بھی ذمہ لیتا ہے۔اسی لیے ہندوستان کو ’’ کثرت میں وحدت ‘‘ والا ملک کہتے ہیں۔
ہمیں آزادی ملے ہوئے 76 سال ہوگئے اور اپنا آئین نافذ ہوئے بھی 74برس ہوگئے۔ان74 برسوں میں ہم نے بہت ترقی کی ہے۔تعلیم،معاش، کھیل، سائنس، فوجی طاقت، ایجادات، کھیتی باڑی، روڈ راستے، ریل گاڑی، ہوائی جہاز، کار، بس، موٹر سائیکل، میڈیا، سوشل میڈیا، آئی ٹی، اونچی اونچی عمارتیں، آفس، فلیٹ، آدیٹوریم، اسٹیڈیم غرض جدھر دیکھیں ترقی ہی ترقی دکھائی دیتی ہے۔
سیاسی اعتبار سے بھی ہم نے خوب ترقی کی ہے۔ دنیا میں ہمارا الگ مقام ہے۔تقریباً ہر معاملے میں اس وقت ہندوستان تیسرے،چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہے۔آس پاس کے چھوٹے چھوٹے مما لک تو ہندوستان کی طرف ایک امید سے دیکھتے ہیں۔
ان 76برسوں میں ہم نے بہت سے فرقہ وارانہ فسادات بھی دیکھے، ان میں کئی تو بے حدخطرناک تھے۔ جمشید پور،بھاگلپور،مردآباد،میرٹھ اور بابری مسجد کے انہدام کے وقت پھیلے فسادات آج تک اپنی شدت کے ساتھ ذہنوں میں زندہ ہیں۔نئی صدی میں فرقہ وارانہ فسادات نے نئی کہانی لکھی ہے۔بابری مسجد انہدا م کے بعد گودھرا فساد،گجرات فساد،مظفر نگر فساد نے ہندو-مسلم نفرت کو مزید ہوا دی۔ فرقہ واریت شہروں تک محدود نہ رہی اور گائوں دیہات بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ملک کو اکثریت اور اقلیت نامی فرقوں میں تقسیم کیا گیا۔2014 میں بھگوا رنگ کی سرکار بنی۔ نریندر مودی وزیراعظم بنے۔نریندر مودی نے مسلم ووٹ کے بغیر کامیابی حاصل کی۔ 2014سے اس ملک میں ایک نئی طرح کی سیاست شروع ہوئی،جس کا مرکز ہندو-مسلم تھے۔اس سیاست نے اقلیتوں میں خوف اور ڈر پیدا کیا۔اکثریتوں میں حد درجہ اعتماد( جو مسلمانوں کے خلاف ایکشن اور نفرت )نے پیدا کیا۔اس سیاست نے پورے ملک میں مسلم مخالف ماحول پیدا کیا جسے اترپر دیش کی سیاست نے بلڈوزر کے استعمال سے اور زیادہ صیقل کیا۔ ہجومی تشدد، لوجہاد، مسجد، مدرسہ، مائک، حجاب، تین طلاق، دفعہ370،الغرض ہر طرح سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول پیدا کیا گیا۔
گزشتہ کچھ برسوں میں مسلمانوں کے ذریعہ سڑکوں پر نماز پڑھنے کو لے کر ملک کی مختلف ریاستوں میں پولیس ایکشن تک لیے جارہے ہیں۔سڑکوں پر نماز پڑھنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جارہی ہے۔واضح ہو کہ مسلمان تین موقعوں پر کثیر تعداد میں نماز ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد اتنی بڑھ جا تی ہے کہ عید گاہیں اور مساجد بھی ناکافی ہو جاتی ہیں۔یہ تین مواقع الوداع جمعہ، عید الفطر اور عید الاضحی ہوتے ہیں۔مسلمان مجبو راً سڑکوں پر صفیں بنا لیتے ہیں۔میرا ماننا ہے کہ یہ غلط ہے۔اسلام کسی کو تکلیف دینا نہیں سکھاتا۔اسلام کی کوئی عبادت ایسی نہیں جو دوسروں کے لیے دقتیں پیدا کرے۔آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد سے تقریباً 70 سال تک کسی سیا سی جماعت نے کبھی سڑکوں پر نماز پڑھنے پر اعتراض نہیں کیا۔جامع مسجد،دہلی پر الوداع جمعہ کی نماز کی صفیں مسجد سے نکل کر اردو بازار، سبھاش پارک،مینا بازار سے ہوتی ہوئی لال قلعے اور جامع مسجد کے درمیان کی شاہراہ (جو دریا گنج کو جاتی ہے)پر پھیل جاتی ہیں۔اس پر تو کبھی کسی سرکار نے آواز نہیں اٹھائی یا کو ئی ایکشن نہیں لیا،کیوں کہ مسلمان سال میں تین مواقع پر کل ملا کر آدھا گھنٹہ فی نماز وقت لگاتے ہوں گے۔
اب ایک دوسرا منظر نامہ دیکھئے۔ہر سال ساون کے مہینے میں ہندو بھائیوں کی کانوڑ یاترا نکلتی ہے۔ہندو بھائی ہری دوار سے جل لاتے ہیں۔وہ ایک طرف کا سفر تو بسوں اور ٹرینوں سے کر تے ہیں۔ واپسی میں جل لے کر پیدل اپنے اپنے گائوں، شہر، محلے کے شیو مندر پر لاکر چڑھاتے ہیں۔ہر سال عقیدت مندوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے۔جل لانے کے اس عمل میں اترا کھنڈ،مغربی اترپردیش،دہلی اور ہر یا نہ براہ ِ راست ملوث اور متاثر ہوتے ہیں۔ سڑکوں کی دونوں جانب ایک ایک کلو میٹر کے فاصلے سے بڑے بڑے پنڈال اور کیمپ لگتے ہیں،جن میں کھانے پینے،نہانے اور آرام کرنے کے انتظامات ہو تے ہیں۔ ان میں سرکاری پنڈال بھی ہو تے ہیں۔مسلمان بھی بھائی چارے کے فروغ کے لیے مختلف مقامات پرکیمپ لگا کر کانوڑ یاتریوں کا استقبال کرتے ہیں اور انہیں کھانے پینے کی چیزیں دیتے ہیں۔
تقریباً پندرہ دن تک کانوڑ یاترا کے راستے کے دونوں طرف کی گوشت کی دکانیں اور ہوٹل بند کر دیے جاتے ہیں۔ شاہراہ میں موجود کٹ کوبلّیوں سے بند کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہفتے تک ایک سائڈ کانوڑ یاتریوں کے لیے اور ایک سائڈ میں آنے جانے والے ٹریفک کو منظوری دی جا تی ہے۔ایک ہفتہ قبل شاہراہوں اور چھوٹے بڑے سبھی راستوں پر ہر طرح کا ٹریفک بند کر دیا جاتا ہے۔بسیں بھی دوسرے روٹ سے آتی جاتی ہیں،جس کا سیدھا اثر عوام پر کرایہ میں اضافے کی شکل میں پڑتا ہے،جبکہ عوام کا کو ئی قصور نہیں۔بڑھے کرایہ کو سرکار کو خود برداشت کرنا چاہیے۔ ایک ہفتے تک کئی ریاستوں کے مختلف شہروں کی زندگی بالکل مفلوج ہوجاتی ہے۔زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ جا تے ہیں۔قومی شاہراہوں اور شہروں کے بیچوں بیچ سے گزرنے والے راستوں کو بند کرنے والے لوگوں پر ایکشن کیوں نہیں ہو تا؟ ان پر ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہو تی؟بلکہ انعام کے طور پر وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر سے ان پر پھو ل برساتے ہیں۔پھر مسلمانوں پر کیس کیوں؟
کیا ہمارا آئین اس تفریق کی اجازت دیتا ہے ؟ اگر دیتا ہے تو اس کا دفعہ نمبر کیا ہے ؟ شاید ہمیں اس کی جانکاری نہ ہو؟ یہ دوہرا معیار کیوں؟ مسلمانوں کے خلاف صرف سڑکوں پر سال میں تین مواقع پر(آدھے گھنٹے کے لیے) نماز پڑھنے کے عوض ایف آئی آر کیوں؟ یا تو علانیہ اس بات کو کہیں کہ ہم آئین کو نہیں مانتے؟ ہم مسلمان اور ہندوئوں میں فرق کرتے ہیں؟ ایک ہی کام کانوڑ یاتریوں کے لیے جائز ہے اور مسلمانوں کے لیے نا جا ئز؟کانوڑ یاترا میں پندرہ دن کے لیے زندگی مفلوج ہوجاتی ہے اور ہر کسی کو پریشانی ہوتی ہے۔پریشان ہو نے والوں میں مسلمان ہی نہیں، بلکہ ہندو، مسلم، سکھ، بودھ، جین، عیسائی غرض عوام کے ایک بڑے طبقے کو ہفتوں تکلیف جھیلنی پڑتی ہے۔
یہ سب کیا ہے ؟ کیا ہندوستان کی کوئی ریاست سیکولر نہ ہو کے ،مذہبی ہو سکتی ہے؟ کیا مرکزی یا صوبائی سرکار کسی ایک مذہب کی ہو سکتی ہے ؟ نہیں۔۔۔؟ اس کے لیے پہلے ملک کا آئین بدلنا ہوگاجو ایک خواب سے کم نہیں۔ مسلمانوں کے خلاف کیس بنانے والے ہندوستانی آئین کو اچھی طرح پڑھ لیں۔کوئی بھی ایکشن لیں تو کسی خاص مذہب کو سامنے نہ رکھیں۔عوام اور شہریوں کو پریشان کرنے والے سب ایک ہوں، سب کے خلاف یکساں ایکشن ہو،جرم کرنے والا ہندو ہو یا مسلمان سب برابر ہیں۔
[email protected]