لبنان کے خلاف اسرائیل نے جنگ چھیڑ دی ہے۔ یوں تو بظاہر وہ حزب اللہ سے انتقام لے رہا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ سے محفوظ تر بنا رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صہیونی ریاست ایک پر امن ملک ایک متنوع قوم اور ایک شاندار مملکت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے در پر ہے۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف مہم شروع کرنے کے نام پر اس نے لبنان کے ہر اس مقام کو تباہ کرنے کا عہد کرلیا ہے جو پچھلی 18سال کی خانہ جنگی میں بچ گیا تھا۔
اسرائیل نے 19ویں صدی کی 7ویں دہائی میں لبنان کو تباہ کرنے اور اس کے سماجی ڈھانچے کو مکمل طور پر نیست ونابود کرنے کے لیے لبنان کے کچھ فرقوں اور عسکری گروپوں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں اور اس کی حمایت کرنے والے طبقات اور خطوں کو تباہ کرنے کی سازش رچی تھی جو کہ اس کے ناپاک عزائم اور انسان دشمنی کی رو ش کی طرف واضح اشارہ ہے۔ 18سال کی جنگ میں لبنان کی حالت اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ اس ملک کی فوج تک میں گہری تقسیم ہوگئی تھی اور یہ افواج مقبوضہ فلسطین سے در بدر کیے گئے ۔
فلسطینیوں کو نکالنے کے لیے کئی محاذوں پر جدوجہد کی گئیں ۔ طائف میں سمجھوتے کے بعد اگرچہ یہ خانہ جنگی ختم ہوگئی مگر شر واعناد کی جو تخم ریزی اسرائیل نے کی تھی اس کا اثر آج بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ یہ ملک شاندار تاریخ ،بہترین جغرافیہ اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے مگر جب سے اسرائیل معرض وجود میں آیا ہے اور خاص طور پر 1967 سے اسرائیل اورلبنان حالت جنگ میں ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازع برقرار ہے۔
اقوام متحدہ کی امن فورس یو این ایف ایل اس جنگ بندی کو قائم رکھنے کے لیے تعینات کی گئی ہے اور اب اسرائیل اپنی قانون دشمنی اور انسانیت دشمن کی وجہ سے امن فورس کو وہاں سے ہٹا نا چاہتا ہے۔ تاکہ اقوام متحدہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کریں۔
اقوام متحدہ کی فوج سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے اور دنیا کی کوئی بھی طاقت اپنے آپ سے وہاں نکلنے کے لیے کئی دبائو نہیں ڈال سکتی ہے لیکن اسرائیل ہے کہ وہ امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی اور دیگر حواریوں کی پشت پناہی کے سبب امن فورس کو بھی تشدد کا نشانہ بنا رہاہے اور اس پر مغربی طاقتیں بطور خاص اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ خامو ش ہیں ۔ ان حالات میں فرانس کسی حد تک کوشش کررہا ہے کہ وہ دیگر عالمی طاقتوں سے علیحدہ حکمت عملی تیار کرے۔ غزہ کے معاملے میں فرانس نے ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں اس کی تعمیر نو کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تھی اس طریقے سے فرانس غزہ کے تنازع کو لے کر ایک رائے عامہ ہموار کرتا دکھائی دیا تھا۔
آج پھر فرانس نے لبنان کے معاملہ میں یہی طریقہ اپنا یا تھا ۔ لبنان اورفرانس کے دیرینہ تعلقات ہیں ۔ فرانس دوسری جنگ عظیم سے قبل لبنان میں ایک بڑی طاقتور سامراجی قوت تھا اورآج تک زندگی کے مختلف شعبوں میں اہل فرانس کا اچھا خاصہ عمل دخل ہے۔
لبنان کی سیاسی شخصیات فرانس میں مقیم رہی ہیں اور فرانس کسی نہ کسی طریقے سے لبنان کے سماجی تانے بانے کو بچانے کی کوشش کررہا ہے اگرچہ فرانس بھی دیگر ملکوں کی طرح حزب اللہ کو ایک شدت پسند جماعت اور عسکری گروپ سمجھتا ہے مگراس کے باوجود اس میں کوئی رائے نہیں ہے کہ لبنان کی سیاسی ، سماجی ، اقتصادی زندگی میں حزب اللہ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔
حزب اللہ اور ایران سے شدید اختلافات کے باوجود کئی ممالک عالمی مصالحت کار حزب اللہ سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں اور جب بھی کوئی پیچ پھنستا ہے تو یہ مصالحت کار حزب اللہ اور عسکری وسیاسی طاقتوں سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ حزب اللہ پر حملہ کرنے کے بعد اسرائیل نے امریکہ اورفرانس کی مداخلت سے ایک 21 دن کی جنگ بندی کی بات کہی تھی۔ امریکہ نے لبنان کے حالات بے قابو ہونے سے بچانے کے لیے ایک خصوصی سفارتکاروں، جنگی ماہرین اور سیاست دانوں کا ایک گروپ تعینات کررکھا ہے جو لبنان کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بہر کیف امریکہ اورلبنان کی مصالحت سے جس 21دن کی جنگ بندی پر اظہار خیال کیاتھا اس جنگ بندی پر عمل کرنے سے اسرائیل نے انکار کردیاتھا اور بہت ہی قلیل وقفے میں یہ دیکھا گیا کہ حزب اللہ کے کمانڈر اسرائیل کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی طاقتیں لبنان کو جنگ بندی کے لیے راضی نہیں کرپارہے ہیں۔ اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں کہ اسرائیل یہ نہیں چاہتاہے کہ لبنان میں کوئی مصالحتی کوششیں کامیاب ہوں۔ اسرائیل کا امن قائم کرنے کا الگ فارمولہ ہے۔ وہ بذریعہ جنگ ، بذریعہ طاقت تمام حریفوں کا منھ بند کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل کو اچھی طرح اندازہ کہ لبنان کی معیشت اورسیاسی قیادت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس کی جارحیت کو برداشت کرسکے۔ وہ غیر فوجی مقامات مثلاً بازاروں، اسکولوں، عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر اہل لبنان کو یہ باور کرا دینا چاہتا ہے کہ ، حزب اللہ کی وجہ سے ان کے عوامی سہولیات کے مقامات کو ، شفاخانوں اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ اس کے برعکس لبنان سے ہمدردی رکھنے والیممالک اور ادارے اقتصادی استحکام کے لیے آئی ایم ایف آسودہ حال ملکوں، مثلاً سعودی عرب ، یو اے ای اور قطرکے ساتھ تال میل کرکے لبنان ایک اقتدار اعلیٰ والا آزاد خودمختار ملک بنائے رکھنے کے لیے کام کررہی ہیں۔ اقتصادی دشواریوں کے علاوہ لبنان میں کوئی ایسی سیاسی قیادت نہیں جو فیصلہ کن رول ادا کرسکے۔
لبنان کا سیاسی اور اقتصادی بحران اس قدر تکلیف دہ ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک نے کنارہ کرلیا ہے اور اب قطر اور فرانس ہی آگے آکر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لبنان کے معاملہ میں امریکہ کا رخ فرانس سے جدا ہے۔ اس میٹنگ میں امریکہ نے اپنے آپ کو الگ رکھا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اولاً امریکہ میں صدارتی انتخابات شباب پر ہیں۔ کوئی سیاسی قیادت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ لبنان سے متعلق کوئی فیصلہ لے سکے۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ مغربی ایشیاکی مجموعی صورت حال پر غور کرنے اور غزہ میں جنگ بندی سے مغربی ایشیا کا دورہ کررہے ہیں۔ ا ن کے سامنے بظاہر خطے کی مجموعی صورت حال جبکہ فرانس کے سامنے فی الحال اسرائیل کے حملہ سے پیدا شدہ صورت حال کو کنٹرول کرنے انسانی جانی مالی نقصان کو ختم کرنے اور امداد مہیا کرانا ہے۔