اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ میں اپنا مقام حاصل کر رہی ہیں؟: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

اٹھارہویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج بر آمد ہونے کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں تیسری بار بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز میں اپنی سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ میڈیا کے بعض لوگ اس کو نہرو کے ریکارڈ کی برابری سے بھی تعبیر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ ریکارڈ نریندر مودی کے لئے زیادہ فرحت بخش نہیں ثابت ہو رہا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ پارلیمنٹ کی تقریروں سے بخوبی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں نریندر مودی کے تیور کا مشاہدہ اس ملک کے عوام نے بہت قریب سے کیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک عزیز میں جمہوری نظام کے نفاذ کے باوجود وہ شہنشاہ کی طرح برتاؤ کرنے والے اپنے رویہ کے لئے معروف ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہی صرف اپنے ’من کی بات‘ کہنے کو ترجیح دینا ضروری سمجھا ہے اور کبھی بھول چوک سے بھی وہ اپوزیشن پارٹیوں کو ادنیٰ درجہ کی عزت و احترام دینے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے خطاب کے بعد جب اراکین کی باری آئی اور انہوں نے اس پر اپنا جواب پیش کیاتو اس نکتے کی طرف ترنمول کانگریس کے ممتاز رکن پارلیمنٹ کلیان بنرجی نے بطور خاص اشارہ بھی کیا اور ایک ایک ریاست اور وہاں کے غیر بی جے پی وزراء اعلیٰ کا نام لے لے کر بتایا کہ کس طرح نریندر مودی نے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کو اپنا سیاسی حریف سمجھنے کے بجائے انہیں ہمیشہ اپنا دشمن تصور کرکے ان کے تئیں نہایت تلخ اور معاندانہ رویہ جاری رکھا ہے۔ تقریباً اسی رویہ کا اظہار نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اس بار بھی کیا جبکہ ان کی پارٹی کے پاس نہ تو ماضی کے دس سالوں والی اکثریت باقی ہے اور نہ ہی خود نریندر مودی کو ملک کے عوام کے درمیان وہ مقبولیت حاصل ہے جو کبھی ان کا تمغہ امتیاز ہوا کرتی تھی اور جس کے بل بوتے پر وہ کسی کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ وہی ریاست اتر پردیش جس کو نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ گجرات کے بعد ہندوتوا کے لئے دوسری بڑی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے اور جہاں سے اراکین پارلیمنٹ کی سب سے بڑی تعداد بھی منتخب ہوکر آتی ہے وہاں کے عوام نے ہندوتوا کے ایجنڈہ کو مسترد کر دیا۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے حلقۂ انتخاب میں جتنا ووٹ ملا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی سنجیدہ اور بڑا لیڈر ’انڈیا‘ اتحاد کی طرف سے کھڑا کیا جاتا تو اس بات کا پورا امکان تھا کہ نریندر مودی یا تو شکست سے دوچار ہوجاتے یا پھر ان کی جیت کا فرق اتنا معمولی ہوتا کہ اس کو شکست کے قریب ہی مانا جاتا۔ یہ بات سیاسی تجزیہ نگاروں کو بالکل مبہوت کئے ہوئے ہے کہ آخر ہندوتوا کے دو قد آور لیڈران کی موجودگی میں بھی اترپردیش کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اتنے شرمناک نتائج کا منہ کیوں دیکھنا پڑا۔ حالانکہ انتخابات سے چند مہینے قبل ہی آناً فاناً رام مندر کا افتتاح بھی کروالیا گیا تھا اور نریندر مودی نے خود کو اس پورے جشن کے بالکل مرکزی نقطہ میں ڈال کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ کو اگر سمجھنا ہو تو راہل گاندھی، مہوا موئترا، راون اور اکھلیش یادو کی تقریروں کو غور سے سننا اور سمجھنا چاہئے۔ راہل گاندھی نے پوری جرأت کے ساتھ ہندوتوا کے خلاف معقول بات کہی ہے اور یہ بتایا ہے کہ سیاسی فائدے کے لئے ہندوازم کا جو استعمال نریندر مودی اور ان کی پارٹی کرتی رہی ہے وہ اس قدیم مذہب کی روح سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہندوازم کا استعمال سماج کو تقسیم کرنے اور نفرت پھیلانے کے لئے اگرچہ بی جے پی اور آر ایس ایس کرتی رہی ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک رواداری کا مذہب ہے۔ دنیا کے باقی مذاہب بھی اتحاد و یکجہتی کی دعوت دیتے ہیں۔ اکھلیش یادو نے بھی اپنی تقریر میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مدلل انداز میں ہندوتوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامیوں اور ان کے اسباب کو بیان کیا۔ اکھلیش یادو نے خاص طور سے 2024 کے عام انتخابات کے نتائج کو فرقہ واریت پر مبنی سیاست کے خاتمہ کا عنوان قرار دیا۔ مہوا موئترا نے بی جے پی کے غرور اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ان کے غیر جمہوری رویہ کو سیاسی ناکامی کے طور پر پیش کیا۔ وہیں راون جو کہ دلت اور پسماندہ کے حقوق کے دفاع کی خاطر لڑنے کے لئے معروف ہیں انہوں نے اس نکتے کو اپنی تقریر میں شدت کے ساتھ اٹھایا جس سے گریز کرنے کی کوشش بی جے پی ہمیشہ کرتی رہتی ہے۔ راون نے واضح الفاظ میں اس بات کا مطالبہ کیا کہ ذات پات پر مبنی سروے کروایا جائے تاکہ انہیں ان کا مناسب حق اور حصہ مل سکے۔ اسی بات کو راہل گاندھی بھی انتخابات کے دوران کہتے نظر آتے تھے کہ جس کا آبادی میں جتنا حصہ ہے اس کو اتنا حق ملنا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں کی گئی ان تقریروں سے عوام میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اب ان کی آواز قانون سازی کے اس سب سے بڑے پنچایت گھر میں ضرور اٹھائی جائے گی۔ اس پورے واقعہ میں نریندر مودی کی دو گھنٹہ سے زائد کی تقریر نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔ وہ اپنی تقریر کے دوران جس سطح کی باتوں پر اتر آئے اور راہل گاندھی کو نشانہ بنایا اس سے قطعاً یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ ملک کے وزیر اعظم ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ غالباً وہ 4 جون کے نتائج سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتے اور اپنی قدیم روش پر ہی گامزن رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اس بات کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کے ذریعہ راہل گاندھی کی کردار کشی کے تمام حربوں کو عوام نے نا منظور کر دیا ہے اور اب وہ باضابطہ اپوزیشن کے منتخب کردہ لیڈر ہیں۔ جس طرح وزیر اعظم کے مرتبہ و مقام کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے احترام پر زور دیا جاتا ہے ویسے ہی جمہوریت میں اپوزیشن کے لیڈر کو عزت کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی اہمیت برطانیہ اور آسٹریلیا میں اس قدر زیادہ ہے کہ وہاں اپوزیشن گویا ایک متوازی حکومت سمجھی جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی چونکہ گزشتہ دس سال کی مدت میں اپوزیشن لیڈر کی موجودگی کے احساس اور ان کے مضبوط موقف کی تپش جھیلنے کے عادی نہیں تھے اس لئے ان کی شخصیت نئے اور بدلے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ بنانے میں دقت محسوس کر رہی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ انہیں ایک مضبوط اپوزیشن کے ساتھ روز مرہ کی سطح پر کام کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی کیونکہ جمہوریت میں عوام جس طرح ایک سرکار کا انتخاب کرتے ہیں اسی طرح طاقتور اپوزیشن کو منتخب کرکے ایک متوازن جمہوری نظام قائم کرتے ہیں۔ ہندوستان کے عوام نے بھی اپنی سیاسی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس بار اپوزیشن پارٹیوں کو آواز عطا کرکے اپنے حقوق کے دفاع کا ذمہ دار بنایا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں بالکل کوتاہی سے کام نہیں لیں گی۔ آئندہ پانچ برسوں تک ان تمام مسائل پر سنجیدہ بحث ہونے کا امکان ہے جن کو اب تک نریندر مودی کی قیادت والی سرکار نے پس پشت ڈال دیا تھا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS