ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کولگنے والا گہن ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مرکز کا آمرانہ انداز حکمرانی ہو یا پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اپوزیشن ارکان سے مارشل کی ہاتھاپائی، خواتین ارکان پارلیمنٹ سے مرد مارشل کی مبینہ چھیڑ چھاڑ یا پھر ٹوئٹر کی جانب سے کانگریسی لیڈروں کا اکائونٹ معطل کرنا، یہ جمہوریت کی کھلی تذلیل اورا ظہار رائے کی آزادی پر طاقت کا ایسا حملہ ہے جسے دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں گوارا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں نہ صرف یہ سب ہورہا ہے بلکہ حکومت ان واقعات کا سیاسی فائدہ بھی اٹھا نے کی کوشش کررہی ہے۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران حکومت نے پیگاسس جاسوسی، زرعی قوانین اور مہنگائی کے مسئلہ پر بحث نہیں کی اور ہنگامہ آرائی کا ساراملبہ اپوزیشن کے سر ڈال دیا۔ ایوان میں جب بھی عوامی مسائل پر جوابات مانگے گئے حکومت نے منھ موڑ لیا، لاچار اپوزیشن کے پاس ہنگامہ آرائی کے سوا کوئی دوسراآپشن نہیں بچا۔ ایوان میں جن مسائل پر بحث نہیں ہوسکی اپوزیشن اسے لے کر سڑک پر آگیا۔لیکن مودی حکومت ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اجلاس میں ہنگامہ آرائی کیلئے اپوزیشن کو کوسنے بیٹھ گئی۔ اس کے نصف درجن وزرانے پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن کو جمہوریت کا سبق پڑھانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف ٹوئٹرانڈیا نے حکومت کی شہ پر 5000ہزار سے زیادہ کانگریس لیڈروں اور کارکنوں کے اکائونٹ معطل کردیے۔کانگریس کے سینئر لیڈروںرندیپ سرجے والا، کے سی وینو گوپال، اجے ماکن، سشمیتا دیو کے ساتھ ہی تمل ناڈو، راجستھان، گجرات اور مہاراشٹر،ممبئی ریجنل کانگریس کمیٹی اور دمن و دیو کانگریس کمیٹی کے آفیشیل ہینڈل کے ساتھ بھی یہی سلوک کیاگیا۔
ٹوئٹر کے اس عمل کی براہ راست وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن اس کے پیچھے انتقام کی سیاست کاجذبہ بھی نظر آرہا ہے۔ بظاہریہ محسوس ہورہاہے کہ ٹوئٹر نے یہ اقدام اپنی صوابدید سے اٹھایاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹوئٹر گزشتہ کئی برسوںسے مرکزی حکومت کے دبائو میں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے حوالے سے ٹوئٹرپرحکومت مخالف مواد ہٹانے کا بالواسطہ دبائو ہے۔
حکومتی دبائو کے شبہ کو تقویت اس سے بھی مل رہی ہے کہ اسی درمیان نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے راہل گاندھی کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس پر بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی نے ریپ متاثرہ کے والدین کی شناخت ظاہر کرکے پاکسو قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ کمیشن نے اس حوالے سے فیس بک اور انسٹاگرام کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے انسٹاگرام اکائونٹ پر جو ویڈیو اپ لوڈ کی تھی وہ جوینائل جسٹس ایکٹ 2015، جنسی جرائم سے بچوں کا تحفظ قانون (POCSO) اور انڈین پینل کوڈ کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی ہے۔
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کا یہ عمل حکومتی شہ پر ہو یا اس کا آزادانہ عمل ہو، دونوں ہی صورتوں میں یہ ہندوستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔یہ اپنے کاروبار کے فروغ اورتحفظ کیلئے ایک نجی کمپنی کی کسی ملک کی سیاست میں دخل انداز ی ہی کہی جائے گی اور جمہوریت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ راہل گاندھی نے بجاطور پر کہا ہے کہ ایک کمپنی اپنے کاروبار کیلئے ہندوستان کے سیاسی عمل میں دخل دے رہی ہے اور ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کی آواز دبانے میں حکومت کی مدد کر رہی ہے۔یہ ہندوستان کی جمہوریت پر حملہ ہے جس میں حکومت نجی کمپنی ٹوئٹرسے بھی تعاون لے رہی ہے۔ہوسکتا ہے کہ فیس بک اورا نسٹا گرام بھی این سی پی سی آرکے مطالبہ کو سنجیدگی سے لیں اور حکومت مخالف اکائونٹ بند یا معطل کردیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے اقدامات کے بعد بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ؟
اپوزیشن کوئی ایک سیاسی جماعت نہیںبلکہ حکومت کی غلط کاریوں کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اپوزیشن کی آواز ہوتی ہے اور اسی اپوزیشن پر جمہوریت کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ہوسکتا ہے حکومت وقتی طور پر اپوزیشن کی آواز دبانے میں کامیاب ہوجائے لیکن مخالفت کے اس سیل رواں پرزیادہ دنوں تک بند باندھے رکھنا مشکل ہی نظر آرہا ہے۔ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم سے پہلے بھی اپوزیشن زندہ تھی اور جمہوریت کے تحفظ میں اپنا کردار اداکرتی رہی تھی۔اب بھی حکومت کے خلاف اٹھنے والی ان آوازوں کو بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسی آوازیں سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم کی محتاج نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس کیلئے صرف انسان کے ضمیر کا زند ہ رہنا ہی کافی ہوتا ہے۔عام آدمی کا ضمیر اب بھی زندہ ہے اور امید ہے کہ جمہوریت پر لگنے والا گہن جلد یا بدیر ضرور چھٹ جائے گا۔
[email protected]
جمہوریت کیلئے اپوزیشن ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS