قمر وحید نقوی
جوڑ-پیوبند، کتربیونت کرکے اپوزیشن کے اتحاد کا بجوکا کھڑا کرنے کا موسمی شگوفہ پھر شروع ہوا ہے۔ مٹی کی ہانڈی کا سر بناکر بجوکا کھیتوں میں کھڑا کیا جاتا ہے، تاکہ پرندے سمجھیں کہ کھیتوں کی رکھوالی کے لیے کوئی آدمی کھڑا ہے۔ اپنے ملک کی سیاست میں اپوزیشن کے اتحاد کے بجوکے کئی مرتبہ کھڑے ہوئے اور پھوٹ کر بکھرے ہیں۔ ہرمرتبہ انتخابات کا موسم آتے ہی نئی نئی شکلوں میں ایسے بجوکے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، کبھی الگ الگ ریاستوں میں مقامی گٹھ بندھنوں کے طور پر، تو کبھی 12-13پارٹیوں کے ملک گیر متحدہ محاذوں کے طور پر۔ اب 2024کے لوک سبھا انتخابات کی سگبگاہٹ ہے تو نیا بجوکا چاہیے۔ اور اس مرتبہ یہ قواعد سیاست کے دوراندیش لیڈر شردپوار کی قیادت میں شروع ہورہی ہے۔
سال2014کا الیکشن معمولی نہیں تھا۔ اس الیکشن نے ملک کی سیاسی سمت بھی بدلی اور بحث بھی۔ اس الیکشن نے کانگریس اور بہت سی اپوزیشن پارٹیوں کو اس بری طرح پٹخا کہ وہ آج تک ڈھنگ سے دوبارہ کھڑے نہیں ہوپائیں۔ وہ کھڑی اس لیے بھی نہیں ہوپائیں کہ انہیں آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ انہیں اب سیاست کیسے کرنی چاہیے؟ سال 2019کے الیکشن میں جب بی جے پی میں بھی اور اپوزیشن میں بھی اگلے وزیراعظم کے تعلق سے طرح طرح کے نام اچھل رہے تھے، نریندر مودی نے پہلے سے بھی بڑی جیت درج کرا کر سب کے ایسے ہوش اڑائے کہ راہل گاندھی کانگریس کے صدر عہدہ سے استعفیٰ دے کر بیٹھ گئے اور دو سال سے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی اپنا نیا کل وقتی صدر ہی نہیں منتخب کرپائی!
پھر اپوزیشن اتحاد کی عمر پر ہمیشہ دو بڑے بحران رہے ہیں-ایک ، پارٹیوں کا نظریاتی تضاد اور دوسرا، لیڈران کی انا اور مفادات کے ٹکراؤ۔ جن سنگھ کے لوگوں کے آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں اٹھے دوہری رکنیت کے تنازع نے مرارجی دیسائی کی قیادت میں بنی جنتا پارٹی کی حکومت گرادی۔ اسی طرح رام جنم بھومی آندولن کے سلسلہ میں اڈوانی کی رتھ یاترا کے سبب وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی سرکار گری۔ چندرشیکھر کی سرکار راجیوگاندھی کے گھر کی جاسوسی کے الزام پر گری۔ ایچ ڈی دیوے گوڑا اور اندرکمار گجرال کی حکومتیں کانگریس کے ساتھ اٹھے سیاسی اختلافات کے سبب گریں۔
اب 2024کا الیکشن پھر معمولی الیکشن نہیں ہوگا۔ یہ مودی اور اپوزیشن دونوں کے لیے وجود کا الیکشن ہوگا۔ مودی اگر بی جے پی کو ٹھیک ٹھاک جیت دلاپانے کی حالت میں نہیں رہے تو انہیں الیکشن کے پہلے یا بعد میں بی جے پی کے اندر سے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن اگر مودی کی قیادت میں بی جے پی مسلسل تیسری مرتبہ بھی بڑی جیت درج کرتی ہے تو دو بڑی باتیں ہوں گی۔ پہلی یہ کہ ملک بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے باقی ماندہ ایجنڈے پر بلاجھجھک آگے بڑھے گا اور دوسری یہ کہ ملک میں اپوزیشن نام کی چڑیا بچے گی بھی یا نہیں؟ کانگریس اور اپوزیشن تو ابھی ہی بے جان، بے دم، حوصلہ شکن نظر آرہے ہیں۔ مسلسل تیسرے الیکشن میں شکست انہیں کس حال میں چھوڑے گی، یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
اپوزیشن کو اس خطرے کا احساس تو ہے کہ سال 2024کا الیکشن اس کے وجود کا الیکشن ہوسکتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کچھ ایک ریاستوں کے مستثنیات کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ اس کا ووٹ بینک مٹھی میں بھری ریت کی طرح مسلسل پھسلتا جارہا ہے۔ مغربی بنگال اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں ہی اپوزیشن اب بھی کچھ آنکھیں تَریر کرسکنے لائق بچا ہے، وہاں اسے مرکز کی حکومت، گورنر اور جانچ ایجنسیوں سے بار بار ٹکرانا پڑرہا ہے۔ حالیہ اسمبلی الیکشن کے دوران حزب اختلاف کے لیڈران کو لکھا گیا ممتابنرجی کا خط اسی تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔
ادھر آزادخیال طبقہ بھی جمہوریت کے مستقبل کے تئیں بہت پریشان ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ہر دن ہی کچھ ایسا رونما ہورہا ہے، جو ملک کو ’ہندوراشٹر‘ کی جانب کھینچ کر لے جارہا ہے۔ آئینی اداروں کی ساکھ اور میڈیا کے بڑے حصہ کا کردار سوالات کے گھیرے میں ہے۔ ایسے میں اگر اپوزیشن بے سدھ پڑا رہا، تو سال 2024کے بعد کا ہندوستان کیسا ہوگا، یہ سیکولر خیمے کی سب سے بڑی فکر ہے۔
اس لیے شردپوار کے گھر ہورہی میٹنگ کا انویٹیشن بھلے ہی یشونت سنہا کی تنظیم ’راشٹرمنچ‘ کے نام سے دیا گیا ہو، لیکن منشا یہی ہے کہ دانشور طبقہ اور اپوزیشن کے کچھ لوگ ملیں اور اگلے الیکشن کے لیے اتحاد کی کہیں سے کوئی تیاری شروع ہو۔ حالاں کہ اس پہلی میٹنگ میں شامل ہونے والوں کے نام اور تعداد حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے مبینہ اتحاد کی راہ کتنی کانٹوں بھری ہے۔ کانگریس کو بلایا ہی نہیں گیا، اس کے بجائے پارٹی کے غیرمطمئن کہے جانے والے جی-23کے کچھ لیڈروں کو انویٹیشن بھیجا گیا۔ ان میں سے کوئی اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوا۔ تو کیا اپوزیشن کا ممکنہ محاذ کانگریس کے بغیر بنے گا؟ کانگریس چاہے جیسی بھی مری گری حالت میں ہو، لیکن وہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے، جس کا پھیلاؤ کم و بیش ملک کے ہر حصہ میں کچھ نہ کچھ ہے۔ لیکن کانگریس کے ساتھ سب سے بڑی دقت ہے کہ وہ اترپردیش، بہار، مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں اپنی اتحادی پارٹیوں کو الیکشن میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائی۔ کیا اسی لیے کانگریس کو ساتھ لینے میں ہچکچاہٹ ہے۔ دوسرا سوال ہے کہ کئی ریاستوں میں کانگریس کی راست ٹکر ترنمول کانگریس سمیت ان پارٹیوں سے ہوتی ہے جو اپوزیشن کے ممکنہ محاذ میں شامل ہوسکتی ہیں۔ یہ پہیلی کیسے سلجھے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر کانگریس اس محاذ میں شامل ہوتی ہے تو اس محاذ کا لیڈر کون ہوگا؟ وہ کانگریس سے ہوگا یا نہیں؟
سوال یہیں ختم نہیں ہوتے۔ اترپردیش میں کیا ہوگا؟ مایاوتی-اکھلیش-کانگریس، تینوں ساتھ نہیں آسکتے۔ ان میں سے کوئی ایک ہی شامل ہوسکتا ہے۔ لیفٹ فرنٹ کا کیا ہوگا، جس کی راست ٹکر مغربی بنگال میں ممتابنرجی سے ہوتی ہے؟ آندھراپردیش میں ٹی ڈی پی-کانگریس-وائی ایس آر کانگریس میں سے کوئی ایک ہی شامل ہوسکتا ہے۔ ایسی پیچیدگیاں کئی جگہوں پر ہیں۔
پھر اپوزیشن اتحاد کی عمر پر ہمیشہ دو بڑے بحران رہے ہیں-ایک ، پارٹیوں کا نظریاتی تضاد اور دوسرا، لیڈران کی انا اور مفادات کے ٹکراؤ۔ جن سنگھ کے لوگوں کے آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں اٹھے دوہری رکنیت کے تنازع نے مرارجی دیسائی کی قیادت میں بنی جنتا پارٹی کی حکومت گرادی۔ اسی طرح رام جنم بھومی آندولن کے سلسلہ میں اڈوانی کی رتھ یاترا کے سبب وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی سرکار گری۔ چندرشیکھر کی سرکار راجیوگاندھی کے گھر کی جاسوسی کے الزام پر گری۔ ایچ ڈی دیوے گوڑا اور اندرکمار گجرال کی حکومتیں کانگریس کے ساتھ اٹھے سیاسی اختلافات کے سبب گریں۔
شرد پوار ویسے تو باصلاحیت سیاستداں ہیں لیکن کیا وہ تمام مشکلات کو حل کرپائیں گے؟ کیا اپوزیشن کو اتنا چست درست کرپائیں گے کہ وہ نریندر مودی کے مقابلہ ایک قابل اعتماد متبادل لگے؟ اور اگر پل بھر کو مان بھی لیں کہ وہ ایسا کر بھی پائے تو کیا یہ کوئی پائیدار سیاسی متبادل ہوگا یا پھر ایک موسمی بجوکے کے مقدر کو حاصل ہوگا؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)