اپوزیشن اتحاد’انڈیا‘

0

اپوزیشن پارٹیوں نے ’انڈیا‘ کے نام سے اپنااتحاد جس امید کے ساتھ بنایا تھا، لوک سبھا انتخابات میں اس کی کارکردگی یقینااسی کے مطابق رہی ، حالانکہ اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لوک سبھا انتخابات کے دوران ہی لگنے لگا تھا، جب مدھیہ پردیش میں سماجوادی پارٹی ، مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے ساتھ کانگریس کا اتحاد نہیں ہوسکاتھا اورکیرالہ میں سی پی ایم نے پہلے راہل گاندھی پھر پرینکاگاندھی کے خلاف امیدوار کھڑاکردیا،لیکن اس معاملہ نے زیادہ طول نہیں پکڑااورحالات معمول کے مطابق ہوگئے ۔اس کے بعد ہریانہ ،جموں وکشمیر اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہوئے ، تواپوزیشن اتحاد کی ایک بارپھر آزمائش ہوئی۔ہریانہ میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ ، جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ اورمہاراشٹر میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ ’انڈیا‘ میں شامل پارٹیوں کا اتحاد نہیں ہوسکا۔اتحاد میں اس وقت نیا موڑ آیا ، جب کانگریس جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ الیکشن لڑکربھی حکومت سے باہر رہی ۔ اپوزیشن اتحادمیں قیادت اورکنوینر کا مسئلہ شروع سے ہے ، جو اب تک حل نہیں ہوسکا، کسی کو نہیں بنایاگیا۔جب ترنمول کانگریس کی طرف سے قیادت کا مسئلہ اٹھاکر اس کیلئے مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی کا نام پیش کیا گیا ، توکانگریس کوچھوڑ کر سبھی پارٹیوں نے اس کی حمایت کی اور لگنے لگا تھاکہ کانگریس بیک فٹ پر آگئی ہے، لیکن یہ معاملہ بھی ایک شوشہ اور پانی کے بلبلا سے زیادہ کچھ نہیں ثابت ہوا۔بات اس وقت بگڑی ،جب گزشتہ دنوں جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے یہ بیان دیاکہ ’انڈیا‘ میں نہ کوئی قیادت ہے اورنہ کوئی ایجنڈااورطویل عرصے سے اس کی کوئی میٹنگ بھی نہیں ہوئی ہے کہ ہم آگے بڑھیں یا نہیں ۔ اس لئے اس کی میٹنگ طلب کرکے یہ وضاحت کردی جائے کہ یہ اتحاد صرف لوک سبھا انتخابات کیلئے بنایاگیا تھا۔عمر عبداللہ کے بیان کی حمایت شیوسیناادھوگروپ کے لیڈر سنجے رائوت نے بھی کردی، حالانکہ بعد میں انہوں نے ’انڈیا‘ یا مہاوکاس اگھاڑی کو تحلیل کرنے کی بات سے انکار کردیا۔

اس طرح دیکھاجائے تو اپوزیشن اتحاد کو آگے بڑھانے کے بجائے اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگایا جارہاہے ۔پارلیمنٹ میں بھی حکمراں این ڈی اے کے مقابلہ میں اپوزیشن کے درمیان مؤثراتحاد نظر نہیں آتا۔ابھی دہلی میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔پنجاب اور ہریانہ کے بعد راجدھانی دہلی میں بھی عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کردیا ۔گزشتہ دنوں عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال نے واضح طورپر کہہ دیا کہ دہلی میں مقابلہ عام آدمی پارٹی اوربی جے پی کے درمیان ہے ، نہ کہ ’انڈیا‘ اوربی جے پی کے درمیان ۔ مطلب صاف ہے کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کوحاشیہ پر رکھ کر الیکشن لڑناچاہتی ہے اوراس معاملہ میں اسے سماجوادی پارٹی، نیشنل کانفرنس، شیوسیناادھوگروپ اورترنمول کانگریس کی حمایت حاصل ہے ۔یہ پارٹیاں بھی وہی کہہ رہی ہیں ، جو کجریوال کہہ رہے ہیں ، جبکہ کانگریس اپنے وجود کی لڑائی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے ۔عام آدمی پارٹی کی طرح وہ بھی جارحانہ انتخابی مہم چلارہی ہے اور مضبوط امیدوار کھڑے کرکے عام آدمی پارٹی یا بی جے پی کو جیتنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتی ہے ، جس کی وجہ سے انتخابی مقابلہ کافی دلچسپ ہوتاجارہاہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ ’انڈیا‘کے تعلق سے اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے جو بھی بیان بازی ہورہی ہے ،اس پر کانگریس خاموش رہتی ہے ۔ کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتی، جس کی وجہ سے کوئی تنازع کھڑابھی ہوتاہے، تو فوراً دب جاتا ہے۔شاید یہ کانگریس کی حکمت عملی کا اثر ہے کہ اتنے اختلافات کے باوجود اتحاد برقرار ہے اوراین ڈی اے کیلئے چیلنج بناہوا ہے ۔

اب اپوزیشن اتحاد کے تعلق سے سنجے رائوت اوراکھلیش یادو کے جو بیانات آئے، وہ امید افزا ہیں۔رائوت کا کہناہے کہ میں نے ’انڈیا‘ یا ایم وی اے کو تحلیل کرنے کی بات کبھی نہیں کہی ، جبکہ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں کوئی تنازع یااختلاف نہیں ہے۔ اتحاد اب بھی برقرار ہے۔وہ علاقائی جماعتوں کو بی جے پی کے خلاف متحد کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ سماج وادی پارٹی اس اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے پرعزم ہے اور بی جے پی کے خلاف لڑنے والی پارٹیوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ مقامی سیاسی مفادات بیچ بیچ میں مسائل پیداکررہے ہیں، لیکن ایسالگتاہے کہ اتحاد اپوزیشن پارٹیوں کی ضرورت بھی ہے اورمجبوری بھی ۔کم ازکم اتناتو واضح ہوگیا کہ یہ اتحاد پارلیمانی انتخابات یاپارلیمنٹ کیلئے ہی بنا ہے ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS