ایک بار پھر مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے اپوزیشن اتحاد کی کوشش شروع کی ہے۔ ممتابنرجی نے ملک کی تمام غیربی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھ کر بی جے پی کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔اپنے خط میں محترمہ ممتابنرجی نے بھارتیہ جنتاپارٹی کی جمہوریت مخالف پالیسیوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پارٹی حکومت نہیں بلکہ ہندوستان پر مکمل خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش میں ہے اور خود کو ہر طرح کے احتساب سے بالاتر رکھنے کیلئے حکومتی مشنری کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ اپوزیشن کو سی بی آئی اورا ی ڈی کا خوف دلاکر ان کی آواز بند کررہی ہے۔ اس صورتحال میں تمام غیر بی جے پی پارٹیوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔بی جے پی جمہوریت اور آئین کو جو دھچکا لگا رہی ہے، اس کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ممتابنرجی نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی پہل کی ہو۔اس سے قبل بھی انہوں نے کئی بار یہ کوشش کی ہے۔2019کے عام انتخابات سے قبل بھی انہوں نے یہ کوشش کی تھی، کانگریس صدر سونیا گاندھی اور این سی پی سربراہ شرد پوار کو انفرادی طور پر خط بھی لکھاتھا اور دہلی میں باقاعدہ اپوزیشن لیڈروں کی میٹنگ بھی ہوچکی ہے۔ چند ماہ پہلے بھی ممتابنرجی نے جنو بی ہندوستان کی کئی سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں سے ملاقات کی تھی اور انہیں اپوزیشن اتحاد کی تجویز پیش کی تھی لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔
مگرا ب اپوزیشن اتحاد ہندوستان کی ضرورت بن چکا ہے۔ ملک کی جمہوریت کی بقا اور وجود کا انحصار ہی اپوزیشن پر ہے کیوں کہ جمہوریت کی بنیاد ی شرط مخالفت اور اختلاف کا حق ہے۔ جس معاشرہ میں فرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے وہ ایک آزاد، جمہورپسند اور مثالی معاشرہ ہوتاہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کیلئے بھی یہی خواب دیکھے گئے تھے اور اس میں بہت حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔لیکن ادھر گزشتہ ایک دہائی سے ملک کا ماحول بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ اقتدار پر مکمل خود مختاری کیلئے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی نے ’ کانگریس مکت بھارت‘کی جو مہم شروع کی تھی اب وہ مہم ’اپوزیشن مکت بھارت‘ بن گئی ہے۔سیاسی منظرنامہ سے اپوزیشن کا صفایا ہوتا نظر آرہاہے۔ یہ صورتحال ملک کی جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ جمہوریت دو پہیوں پر چلتی ہے، ایک پہیہ حکمراں جماعت کا اور دوسرا پہیہ اپوزیشن کا ہوتا ہے۔ جمہوریت اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب حکمراں جماعت کے مقابلہ میں ایک مضبوط اپوزیشن بھی اپنا وجود رکھتا ہو۔
ممتابنرجی نے مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو کراری شکست سے دوچار کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بی جے پی کے ارادوں کو ناکام بناسکتی ہیں۔کئی علاقائی جماعتیں بھی اس پر متفق ہیں۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ اور تلنگانہ راشٹر سمیتی کے سربراہ کے چندر شیکھر رائو ، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے، این سی پی کے سربراہ شرد پوار ، جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین ، جنتادل (سیکولر) کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ ایچ ڈی دیوے گوڑا ، عام آدمی پارٹی کے سپریمو اروند کجریوال اور بیجوجنتادل کے سربراہ نوین پٹنائک اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو بھی ممتابنرجی کے اپوزیشن اتحاد کے منصوبے سے متفق ہیں اوراس پر الگ الگ بات چیت کا دور بھی جاری ہے۔ تاخیر سے ہی سہی لیکن اپوزیشن اتحاد کیلئے اس بات چیت کا کامیاب ہونا ضروری ہے۔ایک متحد اپوزیشن ہی 2024کے عام انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے بڑھتے قافلہ کوروک سکتی ہے۔ لیکن اس سے قبل بھی اپوزیشن کیلئے سب سے بڑا امتحان اسی سال جولائی کے مہینہ میں ہونے والا صدر جمہوریہ کا انتخاب بھی ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی صدر اور نائب صدر کے انتخاب میں اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے مطلوب ووٹوں کی تعداد سے پیچھے ہے۔اس کے برعکس اپوزیشن جماعتوں کے ووٹ زیادہ ہیں۔مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے اب217ارکان ہیں، اترپردیش اسمبلی میں اس بار بھارتیہ جنتاپارٹی کے ارکان کی تعداد کم ہوئی ہے اور سماج وادی پارٹی کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح دوسری ریاستوں میں بھی اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی ایک معقول تعداد ہے۔ یہ اپوزیشن کیلئے سنہرا موقع بھی ہے کہ وہ اپنے اتحاد کا آغاز صدارتی انتخاب سے کرے اور صدر اور نائب صدر کیلئے متفقہ امیدوار سامنے لائے۔اگر اپوزیشن مل کر کسی ایک امیدوار کی حمایت کرے تو صدارتی انتخاب کو ہی بی جے پی کیلئے ناکامی کاآغاز بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر پہلے کی طرح ہی قیادت کے معاملے میں سر پھٹول ہوگیا اور علاقائی پارٹیاں اپنے محدود اور علاقائی مفاد سے بالاترہوکر کسی ایک امیدوار پر متفق نہیں ہوئیں تو پھر اپوزیشن اتحاد ایک خواب ہی رہ جائے گا اور جمہوریت بدستور خطرے سے دوچار رہے گی۔
[email protected]
اپوزیشن اتحاد
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS