سروج کمار
پہلی سہ ماہی کے جی ڈی پی اعدادوشمار سے تصویر صاف ہوگئی ہے کہ کم سے کم گزشتہ 100سالوں کی تاریخ میں ایسی معاشی تباہی نہیں آئی، جیسی آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ معاشی بحران کے لیے موٹے طور پر کوروناوائرس کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ کہانی یہ ہے کہ انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا اور نتیجتاً معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معیشت مزید نیچے پہنچ گئی۔ اس کے بچاؤ میں یہ دلیل بھی دی جارہی ہے کہ بڑی معیشتیں بھی سکڑ گئی ہیں۔ وجہ اور جواز جو بھی ہوں، لیکن یہ اب سچائی ہے کہ معیشت پیندے میں جاچکی ہے۔ ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ آخر ہم نے یہ کون سا سسٹم بنارکھا تھا، جو ایک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے دوران ہمیں کچھ ماہ کی مہلت بھی نہیں دے سکا۔ وقت کے اس موڑ پر ذراٹھہر کر سوچنا سمجھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا وائرس کا ٹیکہ بنانا۔
آج عالمی معیشت کی موجودہ شکل بازار کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ بازار مینوفیکچرر، فروخت کرنے والے اور خریدار سے بنتا ہے۔ ہندوستان بھی اس بازار کا حصہ ہے اور ہر کوئی بازار سے جڑنے کے لیے آمادہ بھی ہے۔ جو کچھ باقی بچا ہے اسے بھی بازار سے جوڑنے کا کام جاری ہے۔ جب کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ بازار کی اسی اندھی دوڑ نے ہمیں آج بیزار کیا ہے۔ بازار کو چلتے رہنے کے لیے پروڈکشن ہوتا رہنا چاہیے، مصنوعات کی فروخت کے لیے دکانیں کھلنی چاہئیں، دکانیں چلیں اس کے لیے خریدار ہونے چاہئیں اور خریداری کے لیے لوگوں کی جیب میں پیسے ہونے چاہئیں۔ بازار کی یہ زنجیر تبھی درست رہے گی، جب اس کی سبھی کڑیاں اپنی جگہ ٹھیک سے کام کرتی رہیں۔ ایک بھی کڑی ڈھیلی پڑی یا ٹوٹی تو معیشت کا یہ نظام بے مقصد ہوجائے گا۔ معیشت کی موجودہ شکل کو چلتے رہنے کے لیے بازار کی اس زنجیر کو ہمیشہ چست درست بننے کی ضرورت ہے۔ لیکن کورونا نے کچھ ایسا کیا کہ لاکھ رکھوالی کے باوجود بازار کی یہ زنجیر ٹوٹ گئی۔ مالی سال 2020-21 کی پہلی سہ ماہی کے جی ڈی پی اعدادوشمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔ شرح نمو صفر سے نیچے 23.9 فیصد تک گر گئی ہے۔ ایسے میں اب ہم اسے ’ایکٹ آف گاڈ‘ کہہ کر پلّہ نہیں جھاڑ سکتے۔ لیکن کسی کو راستہ بھی نہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ آخر کریں تو کیا کریں۔
آج کے 12سال پہلے یعنی 2008 میں امریکہ میں ریئل اسٹیٹ بازار میں اچانک آئی تیزی اور پھر دھڑام سے نیچے آجانے کے بعد قرض دینے والے مالیاتی ادارے ایک ایک کرکرے ڈوب گئے تھے۔ مشہور بروکریج کمپنی لیہمین بردرس نے 15ستمبر 2008کو امریکہ کی تاریخ میں اپنے کو 619ارب ڈالر کی رقم کا سب سے بڑا ویوالیہ قرار دیا تھا۔ مالیاتی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے سبب تمام لوگ اپنی بچت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بے گھر ہوگئے۔ عالمی بازار کی سب سے بڑی دکان امریکہ میں آئی اس مالیاتی مالی بندی کو مہامندی نام دیا گیا تھا۔اس دوران امریکہ کے جی ڈی پی میں 4.3فیصد کی گراوٹ آئی اور پھر بے روزگاری 10فیصد تک بڑھ گئی تھی۔ اس معاشی زلزلہ کا مرکز بھلے امریکہ ہی تھا لیکن اس کے جھٹکے یوروپ اور دنیا کے دوسرے ممالک تک محسوس کیے گئے۔ ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہیں تھا۔ اس وقت ہندوستانی سرکار نے اپنے یہاں معاشی جھٹکے کو بے اثر کرنے کے اقدامات کیے تھے اور جی ڈی پی کا 3.5فیصد یعنی ایک لاکھ86ہزار کروڑ روپے کے مراعات پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت بڑا سوال یہ ہے کہ مالی اقدامات کے باوجود ہندوستان کی معیشت غوطہ کیوں لگاگئی۔ کورونا وبا سے پہلے ہی گزشتہ سال ستمبر میں حکومت نے معیشت کو رفتار دینے کے لیے کارپوریٹ ٹیکس میں 28سال میں سب سے بڑی 10فیصد کی کٹوتی کردی تھی، جس سے کارپوریٹ ورلڈ کو 1.45لاکھ کروڑ روپے کا فائدہ پہنچا تھا۔ وبا کے بعد مختلف اقدامات کے ذریعہ حکومت نے 20لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ لیکن ان سارے اقدامات کا اثر کیوں نہیں ہوا؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ اثر طویل مدت میں ہوگا، لیکن اب تک کے تجربات سے اس بات پر یقین کم ہی ہوتا ہے۔
سال 2008کی کسادبازاری کے دوران مالی اقدامات کے سبب ہندوستان مالی خسارہ 2.7فیصد سے بڑھ کر 6فیصد تک ضرور پہنچ گیا تھا، لیکن 2008-09 کی جی ڈی پی شرح 6.7فیصد سے نیچے نہیں گئی تھی اور چوتھی سہ ماہی میں جی ڈی پی 5.8فیصد تھی۔ البتہ 2009-10کے دوران جی ڈی پی شرح واپس 8.5فیصد پر لوٹ آئی تھی۔ جب کہ معاشی مضبوطی کے لیے اٹھائے گئی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی معاشی اصلاح کے تاریخی اقدامات اور کارپوریٹ پر کٹوتی کے باوجود 2019-20 کی چوتھی سہ ماہی میں جی ڈی پی شرح 3.1فیصد پر آگئی تھی۔ سوال ہے آخر ایسا کیوں ہوا؟ تاریخی اقدامات کے باوجود معاشی صحت سدھرنے کے بدلے بگڑتی کیوں چلی گئی؟ نومبر2016 کی نوٹ بندی سے پہلے کی سہ ماہی میں جی ڈی پی شرح 7.6فیصد تھی، جو دسمبر سہ ماہی میں کم ہوکر 6.8 فیصد ہوگئی اور اس کے بعد ہی سہ ماہی میں لڑھک کر6.1فیصد پر پہنچ گئی۔ کئی مطالعات میں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کے سبب ہندوستان کی جی ڈی پی کو 2فیصد کا نقصان ہوا۔ جی ڈی پی سے باہر کتنا نقصان ہوا، اس کا حساب لگا پانا مشکل ہے۔ اسی طرح جی ایس ٹی سے جی ڈی پی کو ایک سے 3فیصد کی مضبوطی ملنے کا اندازہ لگایا گیا تھا، لیکن یکم جولائی 2017 کو جی ایس ٹی نافذ ہونے سے پہلے ہی صرف اس کے خوف سے جی ڈی پی شرح تین سال کی نچلی سطح 5.7فیصد پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد کی تصویرسب کے سامنے ہے۔
معاشی زوال کے اس دور میں بھی زرعی شعبہ نے گروتھ کی سمت دکھائی ہے، جہاں 3.4فیصد کی اضافی شرح سامنے آئی ہے۔ یعنی روشنی کی کرن گاؤوں سے آرہی ہے۔ پھر ان گاؤوں کو ہی ترقی کا رہنما کیوں نہیں مان لیا جائے۔ زراعت کو معیشت کی بنیاد بناکر گاؤوں کو آتم نربھر بنانے کی تحریک شروع کی جاسکتی ہے۔ ملک میں کل ساڑھے 6لاکھ سے زیادہ گاؤں ہیں اور ان گاؤوں میں 65فیصد آبادی رہائش پذیر ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے حصہ کے آتم نربھر بن جانے کا مطلب ملک کا آتم نربھر ہوجانا ہے۔ مہاتماگاندھی کے گرام سوراج کے تصور میں یہ بات پوشیدہ ہے۔ وقت کے موجودہ تناظر میں گاندھی کے گرام سوراج میں تھوڑی ترمیم بھی کرنی ہوگی، اس سے کچھ قدم آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ گاؤوں کی آتم نربھرتا کے سفر میں حکومت کا کردار ایک ساتھی کا ہو، نہ کہ حکمراں اور ایڈمنسٹریٹرکا۔ اس کے لیے جہاں عوام کو بیدار کرنا ہوگا، وہیں حکمراں-ایڈمنسٹریٹر طبقہ کو اندر سے تیار ہونا ہوگا۔
تبدیلی و کامیابی کے سوال کا جزوی جواب پہلی سہ ماہی کی زراعتی ترقی کے اعدادوشمار سے مل جاتا ہے۔ جواب کے باقی حصہ کے لیے تجرباتی طور پر کسی گاؤں کو آزمایا جاسکتا ہے۔ حالاں کہ ایسی مثالیں پہلے سے بھی موجود ہیں۔ لیکن نئے سرے سے استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اگر نتیجہ 70-80 فیصد بھی فائدہ مندآجاتا ہے تو اسی دن پورے ملک کی گرام سبھائیں ایک ساتھ بیٹھ کر غیرمتعلقہ ہوچکے موجودہ نظام کے خلاف تجویز پاس کریں اور حکومتوں کو آگاہ کرادیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)