ہندوستان میںسماجی انصاف کی حقیقت ’’ساؤتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹیز رپورٹ 2020‘‘کے تناظر میں

0

محمد حنیف خان

سماجی انصاف کا دائرہ نہایت وسیع ہے جس میں ہر طبقہ و قوم کی خوشحالی شامل ہے۔’’سماجی انصاف ‘‘ایک ایسی اصطلاح ہے جو ہر طبقے کے لیے سرکاری ملازمتوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی سماج میں برابری کے درجے تک محیط ہے۔اس میں تعلیم بھی شامل ہے اور روزگار بھی،فرد /قوم کی سلامتی کو بھی اپنے دائرے میں لیے ہوئے ہے اور علاج و معالجہ کی یقین دہانی بھی لیکن اس کا ایک سب سے اہم سرا حکومت سے متعلق ہے وہ ہے اس کا فریضہ۔سماجی انصاف اسی وقت یقینی ہوگا جب حکومت بغیر کسی جانبداری کے اپنا فرض منصبی ادا کرے گی۔
حال ہی میں ’’ساؤتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹیز رپورٹ 2020‘‘ جاری ہوئی ہے۔جس میں سری لنکا، افغانستان،پاکستان،بھوٹان اور ہندوستان میں رہنے والی اقلیتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ہر ملک میں رہنے والی اقلیتوں کے مسائل کو تلاش و تحقیق کے بعد قلم بند کیا گیا ہے جس میں اس کے اسباب و عوامل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان کی رپورٹ میں جہاں ہندو،سکھ،بودھ اور جین مذہب کے ماننے والوں کے مسائل اور ان دشواریوں کو دکھا کر اس کے اسباب و عوامل بتائے گئے ہیں تاکہ وہاں کی حکومتیں ان اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی کرکے ان کے حقوق انسانی ادا کریں، وہیں ہندوستان سے متعلق رپورٹ میں یہاں کی اقلیتوں، مسلم، عیسائی اور بودھوں کے مسائل اور ان کے اسباب پر روشنی ڈال کر یہاں کی حکو مت کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔
 اس رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کے بعد جنوبی ایشیا میں ہندوستان مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور پر تشدد مقام واقع ہوا ہے۔اگر کوئی عالمی ادارہ اس طرح کی رپورٹ تیار کرکے شائع کرتا ہے تو وہ یوں ہی نہیں ہو سکتا، اس کو اس کے اسباب و عوامل پر بھی روشنی ڈالنی پڑتی ہے ورنہ اس کی رپورٹ کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟اس رپورٹ میں بھی اس کے اسباب و عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق سی اے اے اور این آ ر سی کے بعد جس طرح سے یہاں کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی ہے وہ نہایت خطرناک رہا ہے،جس نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے۔اسی طرح سے ماب لنچنگ نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا ہے جس کے لیے حکومت ذمہ دار ہے۔ یہ رپورٹ پورے سال ہونے والے واقعات، ان کے اسباب اور نتائج پر محیط ہے۔رپورٹ صاف طور پر کہتی ہے کہ 2014کے بعد سے مذہبی اقلیتوں /جماعتوں خصوصاً مسلمانوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے خلاف منافرتی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔اسی طرح کنورزن لاء ’’مذہب کی تبدیلی‘‘ کو بھی رپورٹ میں موضوع بنایا گیا ہے کہ کس طرح سے اس کا منفی استعمال مسلمانوں،دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ چندماہ میں اترپردیش سمیت بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں غیر قانونی مذہب تبدیلی سے متعلق ایک بل پر نہ صرف گفتگو تیز ہوئی بلکہ حکومت اتر پردیش نے اس کو نافذ کردیا جس کو عرف عام میں ’’لو جہاد قانون‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ابتدائی دور میں ہی اس قانون کا جس طرح سے منفی استعمال شروع ہوا ہے اس نے نہ صرف مسلمانوں کے ہوش اڑا دیے ہیں بلکہ انصاف پسند اور سماج کو برابری کی نظر سے دیکھنے والے ہندوؤں کی بھی نیندیں اڑ گئی ہیں کیونکہ ان کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ اس طرح تو ان کے بچے نہ صرف خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگیں گے بلکہ اسکول اور ملازمت کے مقامات پر ضرورت کی وجہ سے بھی اگر وہ کسی مسلم نوجوان سے دوستی کرتے ہیں تو وہ بھی ان کے لیے وبال جان بن جائے گا۔بجنور میں کیا ہوا ؟مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی میں دوستی تھی، دونوں ٹہل رہے تھے جن کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔لڑکے کو اسی قانون کی دفعات کے تحت جیل بھیج دیا گیا،اہم بات یہ رہی کہ لڑکی کا باپ آن ریکارڈ کہہ رہا ہے کہ لڑکا اس کا دوست ہے اور وہ لڑکی پر تبدیلیٔ مذہب کا کوئی دباؤ نہیں بنا رہا تھا مگر پولیس ہے کہ ماننے کو تیار نہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق لڑکی کے باپ پر دباؤ بنایا گیا کہ ایف آئی آر میں یہ سب درج کرائیں۔اسی طرح سے شاہجہانپور میں ایک شادی شدہ عورت جو دو بچوں کی ماں تھی جس کے گزشتہ پانچ برس سے ایک مسلم شخص سے تعلقات تھے، اس نے اس پر الزام لگایا کہ اس نے اپنی پہچان چھپائی اور اب تبدیلیٔ مذہب کا دباؤ ڈال رہا ہے۔جس کے بعد پولیس فوراً ایکشن میں آگئی۔اسی طرح سے مراد آباد میں ایک شادی شدہ جوڑے کو بجرنگ دل اور اس طرح کی تنظیموں کے نوجوان پکڑ کر پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں سے نوجوان کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ لڑکی یہ دعویٰ کرتی رہی کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور مذہب تبدیل کیا ہے۔ لیکن یہی پولیس اس وقت خاموش ہوجاتی ہے جب لڑکا غیر مسلم ہو اور لڑکی مسلم ہو، لکھنؤ میں اس طرح کا ایک واقعہ سماجی تنظیم ’’اپوا‘‘ کے پاس ہے جس میں غیر مسلم شخص ایک مسلم عورت کو چھوڑ چکا ہے، اب وہ در در بھٹکنے پر مجبور ہے۔
 اس طرح قانون کا بیجا استعمال بتاتا ہے کہ ملک میں سماجی انصاف نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس کی جگہ اس ہندوتو نے لے لی ہے جس کے لیے بی جے پی جانی جاتی ہے۔سماجی انصاف زمینی حقیقت کے بجائے اب سیاست دانوں کی تقریروں میں ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ سب کچھ عیاں ہے۔ رپورٹ میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ سماجی نابرابری کی وضاحت کے لیے اعداد و شمار بھی دیے گئے ہیں۔ جس کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 14فیصد ہے جو مختلف شعبوں میں اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہیں۔پارلیمنٹ میں محض 4.9فیصد کی حصہ داری ہے، بیوروکریسی میں 3.7فیصد ہیں،28ریاستوں میں نہ تو کوئی مسلم چیف سکریٹری ہے نہ پولیس کا سربراہ ہے۔سپریم کورٹ میں 33ججوں میں محض ایک مسلم جج ہے۔ اسی طرح سے حکومت ہند کے مختلف بورڈوں (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، مینجمنٹ،آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ وغیرہ) کے ممبران میں بھی کوئی مسلم نہیں ہے۔اتنا ہی نہیں مسلمانوں کی کارپوریشن، بینک اور پبلک سیکٹر کی انٹر پرائزیز کے بورڈوں میں بھی صفر نمائندگی ہے۔یہی حال اخبارات و چینل کا ہے۔ رپورٹ میں مکمل تفصیلات کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا گیا ہے اور پھر یہ رپورٹ لکھنے والی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہندوستان اس وقت مسلمانوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بن چکا ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی انصاف کو تحریر و تقریر کے بجائے زمینی حقیقت دے،وہ اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو نوجوانوں کے خواب مٹی مل جائیں گے جس میں صرف اقلیت ہی نہیں اکثریتی طبقے کے بھی نوجوان ہوں گے۔اس کا صرف یہی نقصان نہیں ہوگا، پانچ ٹریلین کی معیشت کے ساتھ ہی ’’وشو گرو ‘‘کا خواب بھی چکنا چور ہوگا کیونکہ جہاں اقلیتیں محفوظ نہ ہوں، خوف وہراس کا ماحول ہو، وجود و عدم کے مابین کشمکش ہو، وہاں امن و امان کا بسیرا نہیں ہوسکتا۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS