دلّی کی سرحدوں پر ڈیرا ڈالے کسانوں کو اب ایک ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، حالاں کہ حالات وہی ہیں جو پہلے دن تھے۔ کسان تینوں قوانین کو واپس لینے کے اپنے مطالبہ پر بضد ہیں، جب کہ حکومت ترمیم کی یقین دہانی تو کررہی ہے، لیکن قانون واپس لینے کے لیے تیار نہیں۔ ملک کی تشویش میں اب ایک اور وجہ سے اضافہ ہونا چاہیے۔ سندھو بارڈر پر جہاں کسانوں کا گزشتہ ماہ سے ’جماوڑا‘ لگا ہے، وہاں تو کسان صبر دکھاتے ہوئے امن سے بیٹھے ہیں، لیکن تحریک سے منسلک ہونے کے لیے آرہے کسانوں کی ملک کے مختلف حصوں میں پولیس سے ہورہی جھڑپ پریشان کرنے والا موضوع ہے۔
حالات قابو میں رہیں، اس کے لیے حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کا سیدھا سا جواب تو یہی ہے کہ تحریک ختم کی جائے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور کسانوں کے مابین بات چیت کا کوئی سلسلہ بنے جو کہ اب تک نہیں ہوپایا ہے۔ ویسے جمعہ کو سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے یوم پیدائش پر کسانوں کو خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اس سمت میں بڑی پہل کی ہے۔ ملک کے کسانوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے جس طرح نئے قوانین سے وابستہ تمام خدشات کو دور کیا ہے، اس سے تعطل کے ٹوٹنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
اس دوران وزیراعظم نے پی ایم کسان یوجنا کے تحت 9کروڑ کسانوں کے کھاتوں میں 18ہزار کروڑ روپے کی کسان سمّان ندھی ٹرانسفر کی۔ یوں تو حکومت کسانوں کے کھاتے میں باقاعدگی سے 2-2ہزار روپے کی تین قسطوں میں سالانہ 6ہزار روپے ٹرانسفر کرتی ہے، لیکن تحریک کے دوران اس رقم کے ٹرانسفر کرنے کی حکومت کے لیے الگ ہی اہمیت ہے، کیوں کہ اس سے خود کو کسان دوست بتانے کے حکومت کے دعویٰ کو بڑی مضبوط بنیاد ملتی ہے۔
گزشتہ 6سال میں مودی حکومت نے کسانوں کے مفاد میں ایسے کئی قدم اٹھائے ہیں۔ کھیتی کو فائدہ مند بنانے کے لیے سمّان ندھی کے ساتھ ہی فصل بیمہ، سائل ہیلتھ کارڈ، نیم کوٹنگ یوریا جیسی تمام اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ 2013-14 میں یوپی اے حکومت کے دوران کھیتی کسانی کا جو بجٹ 21ہزار 900کروڑ روپے تھا، وہ اب بڑھ کر ایک لاکھ 34ہزار 399کروڑ روپے ہوچکا ہے۔ ایم ایس پی کا دائرہ بڑھا کر گیہوں-دھان کے ساتھ اب دلہن-تلہن کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ گوداموں اور کولڈ اسٹوریج کی چین کو بھی گاؤں گاؤں تک پہنچانے کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کا فنڈ بنایا گیا ہے۔
کسان یہ جانتا سمجھتا ہے کہ حکومت یہ سارے جتن اس لیے کررہی ہے کیوں کہ جب ملک آزادی کے 75ویں برس کا جشن منائے تو اپنے پسینہ سے اناج کے گودام بھرنے والے انّ داتا کی جھولی خالی نہ رہ جائے۔ سال 2022تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنا حکومت کا دیرینہ ہدف (Ambitious goal)ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے وہ ہر موقع پر کسانوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی نظر آئی ہے۔ پھر نئے قوانین سے متعلق دقت کہاں آگئی؟ بھلے ہی تحریک کررہے کسان پورے ملک کی نمائندگی نہیں کرتے ہوں، لیکن زرعی ملک میں کسانوں کی تشویشات صرف اس لیے حکومت کی ترجیحات سے باہر نہیں ہوسکتیں کہ وہ صرف دو-چار ریاستوں تک ہی محدود ہے۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ اپوزیشن کسانوں کو ورغلانے میں کامیاب ہوگیا، تو بھی کیا یہ تفتیش کا موضوع نہیں ہونا چاہیے کہ کسانوں کو اعتماد میں لینے میں حکومت نے کہاں کمی کردی؟
شاید یہی تحریک کے اتنا لمبا کھنچ جانے کی جڑ بھی ہے۔ ایم ایس پی، اے پی ایم سی، کانٹریکٹ فارمنگ جیسے موضوع پر حکومت نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے، لیکن کسان ان تبدیلیوں سے اپنے مستقبل کے تعلق سے شک و شبہ میں مبتلا ہیں۔ معاملہ اس لیے پھنسا ہوا ہے کیوں کہ 6راؤنڈ کی بات چیت کے بعد بھی کسانوں کا یہ خدشہ دور نہیں ہوپایا ہے۔ اس پر کسان یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اب انہوں نے ان اصلاحات کا مطالبہ ہی نہیں کیا تو حکومت اسے نافذ کرنے میں اتنی جلدبازی کیوں دکھارہی ہے؟
ظاہری طور پر مسئلہ سلجھانے کی ذمہ داری کسانوں کی نہیں، حکومت کی ہے، لیکن اس کے پاس راستہ کیا ہے؟ حکومت چاہے تو دو-تین متبادل میں سے کسی ایک پر آگے بڑھ سکتی ہے۔ کسانوں کا سب سے بڑا اعتراض ایم ایس پی سے متعلق ہے، اس لیے سرکار چاہے تو اس پر ایک نیا قانون لے کر آسکتی ہے جس میں فی الحال ایم ایس پی والی موجودہ فصلوں کی خرید پر گارنٹی دینے کے ساتھ ایک مقررہ مدت میں باقی فصلوں کو بھی اس میں شامل کرنے کا التزام کیا جاسکتا ہے۔ اس سے حکومت فوری طور پر فصل خرید سے ہونے والے مالی بوجھ سے بچ سکتی ہے۔ حالاں کہ اس کے باوجود حکومت کو سمّان ندھی جیسی اسکیم کو چلاتے رہنا ہوگا، کیوں کہ ایم ایس پی پر الگ سے قانون آنے کے بعد بھی تقریباً 70فیصد چھوٹے اور معمولی کسانوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پائے گا۔ پھر بھی ایم ایس پی پر نیا قانون بننے سے کسان شاید تین قوانین کو واپس لینے کے اپنے مطالبہ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔
دوسرے متبادل کے طور پر حکومت نئے قوانین کو عمل میں لانے کا اختیار ریاستوں پر چھوڑ سکتی ہے۔ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ نئے قانون اگر کھیتی کے لیے فائدے مند ثابت ہوتے ہیں تو جو کسان آج اس کی مخالفت کررہے ہیں، وہ بھی اسے آزمانے کے لیے ترغیب حاصل کرسکتے ہیں۔ قوانین کو کچھ وقت کے لیے ہولڈ پر رکھنے کا ایک تیسرا متبادل سپریم کورٹ نے بھی تجویز کیا ہے۔ ایسا کرنے پر حکومت کو کسانوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے وقت مل جائے گا۔ کچھ وقت بعد حکومت ان قوانین کو ایسی ترمیمات کے ساتھ پیش کرسکتی ہے جس میں کسانوں کی عام رائے بھی شامل ہو اور جو سبھی کو قبول ہوں۔
یقینا حکومت اور بھی بہتر متبادل پر کام کررہی ہوگی، لیکن فی الحال تو راحت کی بات یہ ہے کہ تعطل ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر نئے سرے سے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں۔ سمّان ندھی کے ٹرانسفر سے ایک دن پہلے ہی حکومت نے کسانوں کو لیٹر لکھ کر ان سے اگلے راؤنڈ کی بات چیت کا وقت اور مقام طے کرنے کے لیے کہا ہے۔ اتفاق سے جس دن کسانوں کو سمّان ندھی دی گئی، اسے ملک ’گڈ گورننس ڈے‘ یعنی سشاسن دِوس کے طور پربھی مناتا ہے۔ اچھا تو یہی ہوگا کہ ایسے اہم موقع پر وزیراعظم کی جانب سے کی گئی پہل سے وہ راستہ بھی نکل آئے، جس سے کھیتی میں دوبارہ گڈگورننس کا ماحول لوٹ آئے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
سمّان کی چاہ، سمادھان کی راہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS